ایرانمشرق وسطی

ایران کا برطانیہ سے ایرانی تیل بردار بحری جہاز کو چھوڑنے کا مطالبہ

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ جبل‌الطارق میں ایرانی تیل بردار بحری جہاز کو روکنے سے متعلق برطانیہ کی دلیل غیر قانونی ہے اس لئے اسے چاہئیے کہ وہ فوری طور پر ایرانی تیل بردار بحری جہاز کو چھوڑ دے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سیدعباس موسوی نے آج جمعہ کے روز ارنا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرائن و شواہد ،دستاویزات اور اسی طرح برطانوی حکام کے متضاد بیانات سے بخوبی دکھائی دیتا ہے کہ وہ امریکی دباو کی وجہ سے خطرناک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ فوری طور پر ایرانی تیل بردار بحری جہاز کو چھوڑ دے اس لئے کہ یہ سب کے مفاد میں بہتر ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل فرانس پریس نے جبل‌الطارق کی علاقائی پولیس کے ترجمان کے حوالے سے کہا تھا کہ ایرانی تیل بردار بحری جہاز کے نا خدا(کپتان) اور ایک اعلی آفیسر کوجن کا تعلق ہندوستان سے ہے جمعرات کے روز یورپی یونین کی پابندیوں کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جبل‌الطارق کی علاقائی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والوں سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے تاہم ابھی تک ان پر مقدمہ درج نہیں کیا گیاہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کےصدر ڈاکٹر حسن روحانی نے ایرانی تیل بردار بحری جہاز کو روکے جانے کے برطانوی اقدام کو انتہائی بچکانہ حرکت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ برطانیہ والوں نے بحری بدامنی کا آغاز کیا ہے اور انہیں اس کے نتائج کو اچھی سمجھ لینا چاہئے۔

بدھ کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے ایران کے تیل بردار بحری جہاز کو ٹیم بی کے کہنے پر روکا ہے۔ٹیم بی سے صدر ایران کا اشارہ صیہونی حکومت کے وزیراعظم بن یامین نتیتن یاہو، سعودی ولی عہد بن سلمان، متحدہ عرب امارات کے ولی عہد بن زائد اور قومی سلامتی کے متعلق امریکی صدر کے مشیر بولٹن کی جانب ہے جو مسلسل ایران کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات میں مصروف ہیں۔

صدر مملکت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ آبنائے جبل طارق پر برطانیہ کا تسلط غیر قانونی ہے اور ایرانی بحری جہاز کو روکا جانا عالمی قوانین اور ضابطوں کے منافی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ دنیا میں جہاز رانی کے تحفظ کے لیے سب کو مل کر کوشش کرنا چاہیے کیونکہ ایسے اقدامات کا اعادہ دنیا میں بدامنی کا سبب بنے گا جو کسی کے فائدے میں نہیں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button