اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحد کے ساتھ تفتان کیمپ میں مقیم سابق اور موجودہ رہائشیوں کا کہنا ہےکہ قرنطینہ کیمپ میں پانی کی قلت ہے اور واش رومز اور اسی طرح غذائی اور طبی اشیاء اور وسائل کی سہولت میسر نہیں جس سے زائرین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان سے شائع ہونے والے اخبار ڈان کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2 ہزار سے زائد زائرین اور تاجر تفتان میں قرنطینہ میں ہیں اور وہ 14 روز یکی مدت ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد انہیں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔
تفتان میں قرنطینہ میں موجود ایک شخص نے ٹیلی فون پر انٹرویو کے دوران نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں 7 روز سے ایک ہی ماسک استعمال کر رہا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں یہاں آیا تھا تو میں وائرس میں مبتلا نہیں تھا تاہم اگر مجھ میں اب وائرس کی تصدیق ہو تو میرے لیے یہ حیرت کی بات نہیں اس لئے کہ یہاں صفائی کا انتظام نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ عوام کوریڈورز میں زمین پر سونے پر مجبور ہے جبکہ لگائے گئے خیمے بھر چکے ہیں۔
اس وقت تک بیمار زائرین کو صحت مند زائرین سے الگ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا تھا کہ حکام تفتان پر زائرین کو کھانا، سہولیات، رہائش طبی معاونت اور تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔