لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کی جوابی کاروائی کے خوف سے اسرائیلی فوج لبنان کے ساتھ لگی سرحد پر اپنی گاڑیوں میں فوجیوں کے بجائے مجسموں کا استعمال کر رہی ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر سرحد پر موجود ایسی جیپوں کی تصاویر وائرل ہو رہی ہیں جن میں فوجیوں کے بجائے فوجی لباس میں مجسمے رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے اس قدم کا جم کر مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کی گاڑیوں میں رکھے مجسموں کا راز اس وقت کھلا جب لبنانی ٹی وی چینل المنار کے رپورٹر علی شعیب نے سرحد کی دوسری جانب تعینات اسرائیلی گاڑیوں کی ویڈیو فوٹیج میڈیا میں جاری کی ۔
شعیب کے ٹویٹ کو وسیع پیمانے پر ری ٹویٹ کیا گيا اور ہزاروں افراد نے اس پر رد عمل کا اظہار کیا۔ اس راز کے انکشاف سے ایک بار پھر اسرائیلی فوج کے بڑے بڑے دعوؤں کی پول کھل گئی ۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے تل ابیب کی بیوقوفی کا پتہ چلتا ہے جبکہ اسے ایک ہوشیار، پیشہ ور اور شجاع مزاحمتی گروہ کا سامنا ہے، جو اسے شکست دینے کی قابلیت رکھتا ہے۔
لبنانی رپورٹر کی اس رپورٹ کی ایک اسرائیلی ٹی وی رپورٹر نے اسی طرح کی ایک تصویر ٹویٹ کرکے تائید کر دی ۔ اسرائیلی رپورٹر نے بھی اسرائیلی فوج کی ایک جیپ کی تصویر ٹویٹر پر پوسٹ کی جس میں ایک مجسمہ دیکھا جا سکتا ہے۔
لبنان کی نیوز ویب سائٹ العہد نے بھی ایک ٹویٹ کرکے کہا ہے کہ حزب اللہ کے جوابی حملے سے خوفزدہ اسرائیلی فوج، لبنان سے لگی سرحد پر فوجی گاڑیوں میں فوجیوں کے بدلے مجسمے رکھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں اسرائیل کو جوابی حملے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ ہفتے جنوبی بیروت میں ناکام ڈرون حملہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس کے ڈرون طیاروں کو حملہ کرنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا گیا تھا۔
لبنان کے المیادین ٹی وی چینل کے رپورٹر علی مرتضی نے بھی سرحد پر تعینات اسرائیلی گاڑیوں کے ساتھ سیلفی سمیت متعدد تصاویر شائع کی تھیں ۔
انہوں نے ان تصاویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ سرحد پر ایک بھی اسرائیلی فوجی موجود نہیں ہیں، وہ فوج کہاں ہے جسے شکست نہیں دی جا سکتی تھی؟ وہ اپنے فوجیوں کے بدلے مجسموں کا استعمال کر رہے ہیں؟ انہیں ڈائپرز کا استعمال شروع کر دینا چاہئے کیونکہ ان کے دن پورے ہو چکے ہیں ۔