عراق کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حکومت عوام کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی – اس درمیان اطلاعات ہیں کہ جن بعض علاقوں میں بے روزگای اور بدعنوانیوں کے خلاف مظاہرے کئے جارہےتھے وہاں اب حالات معمول پر لوٹ آئے ہیں
فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے جمعے کی صبح ٹیلی ویژن پر اپنے براہ راست خطاب میں اس بات کا ذکرتے ہوئے کہ عوام پر اپنی آواز پہنچانے کے لئے کوئی پابندی نہیں ہے ، عراق کے تمام صوبوں میں حالات کو معمول پر لانے کی ہدایات جاری کیں-
عراقی وزیراعظم نے اس بات کا یقین حاصل کرنے کے لئے کہ مظاہرین پر کوئی تشدد نہیں کیا جا رہا ہے اور آئندہ بھی نہیں کیا جائے گا ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ حکومت نے اقتصادی اصلاحات کا آغاز کردیا ہے تاکہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرے گی تاکہ اس کے مطابق حکومت غریب خاندانوں کو تنخواہیں دے سکے۔
عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے مزید کہا کہ حکومت نے حالیہ مظاہروں میں گرفتار کئے جانے والے تمام مظاہرین کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے البتہ رہا ہونے والوں میں وہ افراد شامل نہیں ہوں گے جنھوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
عراق کی مشترکہ آپریشنل کمانڈ کے ترجمان یحیی رسول نے بھی جمعرات کو اعلان کیا کہ بغداد اور دیگر تمام صوبوں میں سیکورٹی کی صورت حال پوری طرح کنٹرول میں ہے تاہم بطور احتیاط کرفیو نافذ ہے۔
بغداد سمیت عراق کے بعض صوبوں میں بےروزگاری ، عام سروسز کی خراب صورت حال اور دفتری بدعنوانیوں کے خلاف حالیہ دنوں ہونے والے مظاہروں میں بعض پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب عراق میں انسداد بدعنوانی کے محکمے نے جمعرات کو ایک اجلاس میں جس میں عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی بھی موجود تھے، بتایا کہ بدعنوانی کے الزام میں تقریبا ایک ہزار سرکاری ملازمین کو برطر ف کردیا گیا ہے۔
ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کے الزام میں ایک ہزار سرکاری ملازمین کی برطرفی ایسی حالت میں انجام پائی ہے کہ بدعنوانی کی روک تھام ، عام سروسز کو بہتر بنانے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ عراقی مظاہرین کے جملہ مطالبات ہیں جو وہ منگل کے روز سے سڑکوں پر نکل کرکر رہے ہیں۔ بعض مظاہرین کو دیکھ کر پتہ چل رہا ہے کہ ان کا اصلی ہدف عوامی مطالبات نہیں ہے بلکہ آشوب و بلوہ بپا کرنا ہے اور انھوں نے مظاہروں میں تشدد برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عراقی حکومت اور مظاہرین کے درمیان گفتگو کے آغاز کے ساتھ ہی اس ملک کے کچھ صوبوں میں کرفیو بھی نافذ کردیا گیا ہے۔ درایں اثنا عراقی وزیراعظم کے دفتر نے جمعرات کو ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے مظاہرین کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے ان کے نمائندوں سے رابطے شروع کردیئے ہیں۔ ثبوت و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مظاہرے ازخود شروع نہیں ہوئے بلکہ اس میں اغیار اور بیرونی طاقتوں کے ہاتھ ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عراق میں ہونے والے مظاہروں کے بارے میں اناسی فیصد ٹوئیٹس سعودی صارفین کے ہیں ۔