دنیا

ڈرون کی سرنگونی کے بعد اسرائیل پر گرا دوسرا بم، اسلامی مزاحمت، اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ ہے!

اسرائیل کے مشہور تھنک ٹینک بیگن السادات سینٹر نے ایک تحقیق جاری کی ہے جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر جو محاذ سرگرم ہے جس میں شام، حزب اللہ، جہاد اسلامی اور حماس موجود ہيں، وہ اسرائیل کو تھکا دینے والی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے۔

سینئر اسرائیلی کمانڈر جنرل گرشون ہکوہین نے اس تحقیق میں شرکت کی جو اس سے پہلے 42 سال تک اسرائیلی فوج میں کام کر چکے ہیں ۔ وہ مصر اور شام سے اسرائیل کی جنگوں میں شریک ہو چکے ہیں۔

ہکوہین کے مطابق گزشتہ عشروں کے دوران دنیائے عرب میں جو انتشار رہا اور خاص طور پر شام میں جو خانہ جنگی شروع ہوئی اس سے اسرائیل کو بڑا سکون مل گیا تھا اور اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے اندر سیکورٹی ماہرین کا یہ خیال تھا کہ اب صیہونی حکومت کے وجود کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تاہم جنرل ہکوہین نے اپنی تحقیق میں لکھا کہ ابب جب شام کی خانہ جنگ ختم ہونے جا رہی ہے تو اسرائیل کے لئے شمالی اور جنوبی دونوں سرحدوں پر بہت ہی شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس خطرے کی قیادت ایران کر رہا ہے جبکہ اس کے محاذ میں شام، حزب اللہ، جہاد اسلامی اور حماس شامل ہیں۔

جنرل ہکوہین کا کہنا ہے کہ 1979 میں اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدہ ہونے کے بعد سے اب یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایک ساتھ متعدد محاذوں پر جنگ شروع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ محاذ لبنان، شام اور غزہ پٹی ہی نہیں مغربی سرحدوں سے بھی حملے شروع ہونے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔

ہکوہین کا خیال ہے کہ یہ خطرے تین طرح کے ہیں، ایک تو میزائلوں کا خطرہ ہے جو بہت دقت سے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی توانائی رکھتے ہیں۔ ان میزائلوں کو اسرائیل کے اندر اہم اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ میزائل اسرائیل کے اندر ہوائی اڈوں، فوجی چھاونیوں، بجلی گھروں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

ہکوہین کے مطابق ان خطروں سے اسرائیل کا ہر طرف سے محاصرہ کر لیا گیا ہے اور اسرائیل درمیان پر بری طرح پھنس گیا ہے۔ ایران، حزب اللہ اور حماس نے اسرائیل کا محاصرہ کر لیا ہے اور اس مشترکہ محاذ میں یہ طاقت ہے کہ وہ اسرائیل کے اندر معمولات زندگی کو متاثر کر دے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب حزب اللہ نے اسرائیل کا ڈرون طیارہ سرنگوں کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ فضائی شعبے میں اس نے زبردست ترقی کر لی ہے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

بھی چیک کریں
Close
Back to top button