وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں جرمن وزیر خارجہ کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں شامل یورپی ملکوں کو چاہئے کہ ایران کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد کے تعلق سے بات کرنے سے پہلے وہ خود ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے اور خلیج فارس کے علاقے میں اپنے اشتعال انگیز اقدامات اور رویّے سے باز آجائیں۔
ڈاکٹر ظریف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جرمن وزیر خارجہ اور ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں کو چاہئے کہ وہ معاہدے کے حوالے سے ایران کے اقدامات پر کوئی بات کرنے سے پہلے نفرت انگیز کورونائی اپرتھائیڈ، بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی اور مغربی ایشیا کے علاقے میں اپنے شرپسندانہ اقدامات منجملہ جنوبی خلیج فارس کے عرب ملکوں کو سو ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت اور اسی طرح اسرائیل کے دہشت گردانہ اقدامات کی بے چوں چرا اور اندھی حمایت کرنے سے باز آجائیں۔
انہوں نے ایٹمی معاہدے کے فریق یورپی ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے مطابق اپنے وعدوں اور فرائض پر عمل کریں۔
خیال رہے کہ جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایران کے وزیر خارجہ کے ردعمل سے کچھ گھنٹے قبل وہائٹ ہاؤس کی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ جرمنی ایک ایسا متبادل ایٹمی معاہدے کا خواہاں ہے جو ایران کے ساتھ طے شدہ موجودہ ایٹمی معاہدے سے وسیع تر ہو اس لئے کہ ان کی نظر میں موجودہ ایٹمی معاہدہ ناکافی ہے۔
آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکا کی خودسرانہ اور غیر قانونی علیحدگی کے بعد اس معاہدے میں شامل یورپی ملکوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ معاہدے میں درج ایران کے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی پاسداری کریں گے۔
ان ملکوں نے امریکی اقدام کی زبانی مخالفت کرنے کے باوجود بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے سلسلے میں اپنے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا ہے۔
ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکی فیصلے کی مخالفت کرنے کے باوجود یورپی یونین نے بھی ایران کے میزائل پروگرام اور اس کی علاقائی پالیسیوں کے سلسلے میں امریکی دعووں کی ہی حمایت کی۔
ایسی صورت حال میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل نے آٹھ مئی سن دو ہزار انیس کو بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ اور غیر قانونی علیحدگی کو ایک سال پورے ہونے کے موقع پر معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کی بنیاد پر اسکی شقوں پر عمل درآمد کو بتدریج معطل کرنا شروع کر دیا تاکہ ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد اور ایران کے حقوق کے درمیان توازن پیدا ہو سکے۔