سعودی ولی عہد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی عوامی سطح پر شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب حکومت پاکستان نے بن سلمان کے دورے سے قبل سوشل میڈیا کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کی دھمکی دی ہے۔
المنار ٹیلی ویژن کے مطابق پاکستان کے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں اور شخصیات نے یمن، شام اور بحرین میں آل سعود خاندان کے جنگی جرائم کی مذمت میں مظاہرے اور بن سلمان کے دورہ پاکستان کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔
پاکستانی عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھی مختلف بینر اور تصاویر کے ذریعے بن سلمان کے دورہ پاکستان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
ان بینروں اور تصاویر میں یمن میں آل سعود کے جنگی جرائم، دنیا میں تکفیری گروہوں کی پھیلائی ہوئی تباہ کاریوں اور مخالف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کمپین چلانے والوں کا کہنا ہے کہ بن سلمان ایک قاتل اور جنگی مجرم ہے اور اس کا پاکستان میں استقبال نہیں کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان نے بن سلمان کے دورے سے محض دو روز قبل سوشل میڈیا کی کڑی نگرانی اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کا اعلان کیا ہے۔
میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اگلے ہفتے سے نفرت پھیلانے والے سوشل میڈیا کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔
سماجی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے بن سلمان کے دورے سے قبل کیے جانے والے اس اعلان پر شک کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا کہ اس اعلان کی آڑ میں بن سلمان کے جنگی جرائم کا پردہ فاش کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ادھر یمن کے خلاف قائم سعودی فوجی اتحاد کا ایک وفد پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی سرکردگی میں پہلے ہی پاکستان پہنچ چکا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد بن سلمان سولہ سے سترہ فروری تک پاکستان کا پر تعیش دورہ کریں گے جس کے سنگین اور بھاری اخراجات پاکستانی ٹیکس دھندگان کو ادا کرنا پڑیں گے۔
پاکستان میڈیا کے مطابق بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر گوادر سٹی میں آئل ریفائنری کے قیام سمیت سرمایہ کاری سے متعلق متعدد سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے جانے کا امکان ہے۔
اسی دوران پاکستانی سینٹ کے ارکان نے عمران خان حکومت کی خارجہ پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ علاقائی پالیسیوں کی تشکیل میں ملک کو بیرونی جنگوں سے دور رکھنے کی حکمت عملی کو پیش نظر رکھیں۔
سینیٹ کے ارکان کا کہنا ہے کہ آئندہ کسی بھی بیرونی جنگ میں پاکستان کی شمولیت ملک کے لیے تباہ کن نتائج کی حامل ہو گی۔
ناقدین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آل سعود خاندان، عمران خان کی خوشنودی حاصل کرنے یا پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لیے بارہ ارب ڈالر کی امداد نہیں دے رہا بلکہ وہ اپنے مقاصد کے لیے حکومت پاکستان اور پاکستانی فوج کو استعمال کرنے کی غرض سے اس ملک کے اقتصادی اور معاشی بحران کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کر رہا ہے۔