بعض پریس ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی ولیعہد کے اختیارات کم کر دیئے گئے ہیں جبکہ ریاض میں کسی بھی ذریعے نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
سعودی ولیعہد بن سلمان کے اختیارات میں کمی کئے جانے کی حقیقت سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی ولیعہد بن سلمان کے اختیارات میں کمی کئے جانے کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ کیوں تیز ہو گیا ہے؟اس بارے میں ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ آل سعود حکومت، بن سلمان کی پالیسیوں کے سلسلے میں شدید اندورنی و بیرونی دباؤ میں ہے۔اندرون ملک سعودی ولیعہد نے خواتین کے حقوق کے شعبے میں کچھ نمائشی اصلاحات انجام دی ہیں جبکہ وہابی مفتیوں کے اختیارات اور اثر ورسوخ میں کمی کرتے ہوئے شہری حقوق کے لئے کام کرنےوالوں ، سیاسی کارکنوں اور مذہبی تبلیغ و تشہیرات خاص طور سے سعودی شہزادوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کی سرکوبی کا عمل تیز کر دیا ہے۔اس رو سے ملک کے اندر مختلف سیاسی و شہری حقوق کے سرگرم کارکنوں اور وہابی مفتیوں نیز اختلاف رکھنے والے سعودی شہزادوں کی جانب سے بن سلمان کو شدید مخالفت کا سامنا ہے اور یہ مخالفت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔خارجہ شعبے میں بھی بن سلمان ہی یمنی عوام کے خلاف مسلط کردہ جنگ و جارحیت کے ذمہ دار اور منصوبے ساز رہے ہیں جس کے نتیجے میں حالیہ عشروں کا سب سے بڑا انسانی المیہ رونما ہوا ہے اور اسی وجہ سے سعودی عرب کی آل سعود حکومت کے خلاف عالمی سطح پر تنقید کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا جارہا ہے ۔اسی طرح مخالف صحافی جمال خاشقجی کا بن سلمان کے حکم سے ہی قتل ہوا اور اس بنا پر بھی آل سعود حکومت پر دباؤ میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا یہاں تک کہ عالمی رائے عامہ سعودی ولیعہد کو ایک جنگی مجرم سمجھتی ہے۔اس صورت حال کے پیش نظر زیادہ خیال یہ ہے کہ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بیرون ملک سعودی عرب کی پوزیشن مزید کمزور ہونے سے بچانے اور اپنے اور اپنے بیٹے کے خلاف خاندانی اتحاد کے قیام کی روک تھام کی غرض سے بن سلمان کے کچھ اختیارات کم کر دیئے ہیں تاکہ سعودی اقتدار میں اپنے بیٹے کا تحفظ کر سکیں۔ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز، اپنے بیٹے کی جاہ طلبی اور اپنی حیات میں ہی بادشاہت کے تخت پر بیٹھنے کی بن سلمان کی کوشش و عجلت پسندی سے خوش نہیں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز، اپنے بیٹے کے رویّے کو سعودی باشاہت کے خلاف بغاوت کی کوشش کی ایک علامت سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بن سلمان کے اختیارات کم کر کے اس کی بھرپور جاہ طلبی کی کوشش کو کنٹرول کرتے ہوئے باپ کے خلاف بیٹے کی بغاوت کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔آخری بات یہ کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت میں اختلافات کا شدت اختیار کر جانا ایک ایسی حقیقت ہے جو مکمل طور پر نمایاں ہو چکی ہے اور اقتدار کی جنگ اب نہ صرف عبدالعزیز کے پوتوں بلکہ ایک طرح سے خود باپ بیٹے میں بھی کافی تیز ہو گئی ہے۔