دنیایورپ

امریکی وزیر جنگ بھی عہدے سے فارغ

امریکہ میں استعفوں میں برطرفیوں کا معاملہ آخرکار پینٹاگون تک پہنچ گیا اور اس ملک کے وزیر جنگ جیمز میٹس نے بھی صدر ٹرمپ کے ساتھ اختلافات کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔

جمیز میٹس، جنہیں امریکی فوج میں ان کے دیگر ساتھی پاگل کتا کہتے ہیں، آخر کار ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے سے عاجز آگئے اور انہوں نے وائٹ ہاوس کی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے وزیر جنگ کے عہدے سے استعفی دے دیا۔
جیمز میٹس کا یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کی جانب سے شام سے  امریکی فوجیں واپس بلانے کے ناگہانی فیصلے کے محض ایک دن کے بعد سامنے آیا ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے شام سے فوجیں نکالنے کے معاملے پر نہ صرف یہ کہ جیمز میٹس سے کوئی مشورہ نہیں کیا بلکہ پینٹاگون کے چیف کی حثیت سے اس معاملے پر ان کی مخالفت کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی۔
بعض خبروں میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مہینوں کے دوران افغانستان اور عراق سے بھی امریکی فوج کے مکمل یا محدود انخلا کی خـبروں نے پینٹاگون کے چیف کے سامنے استعفی دینے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں چھوڑا اور جیسے ہی انہوں نے استعفی دیا وائٹ ہاؤس نے اسے منظور کر لیا۔
البتہ امریکی صدر اور وزیر جنگ کے درمیان اختلافات آج کے نہیں بلکہ ٹرمپ کابینہ کی تشکیل کے فورا بعد سے چلے آرہے تھے اور کہا جاتا ہے کہ امریکی وزارت جنگ، ٹرمپ کے بہت سے فیصلوں کی مخالف تھی جن میں بعض ملکوں اور خاص کر اسلامی ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا فرمان، امریکہ جنوبی کوریا فوجی مشقیں روکنے اور پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحدوں پر فوجوں کی تعیناتی جیسے معاملات شامل ہیں۔
بہر حال امریکہ کے کسی بھی صدر کے مقابلے میں ٹرمپ ایسے صدر واقع ہوئے ہیں جو وزارت جنگ اور فوجی افسران کے مشوروں اور سفارشات پر زیادہ  کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کے لیے سن دو ہزار بیس کے صدراتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا، فوجی اور سیکورٹی عہدیداروں کے مشوروں پر عملدرآمد سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

ٹرمپ کو امید ہے کہ شام سے فوجوں کے انخلا، بیرونی جنگوں کے اخراجات میں کمی اور سرحدوں کی سلامتی کو یقینی بنا کر دو سال بعد ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ٹرمپ کے خود سرانہ اقدامات کی وجہ سے حکومتی حلقے اور کانگریس میں ان کی پارٹی کے دیگر رہنما تشویش اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button