عراقمشرق وسطی

داعش کے خفیہ ٹھکانوں کے خلاف عراقی فورسزکی کارروائی

عراقی میڈیا نے خبردی ہے کہ عراق کی فوج، فیڈرل پولیس اورعوامی رضاکارفورس کی مشترکہ کارروائی میں جو ارادۃ النصر کے نام سے جاری ہیں داعش کے گیارہ خفیہ ٹھکانوں اور تین سرنگوں کو تباہ کردیا گیا –

عراقی فورسز نے اس سے پہلے بھی الانبار اور صلاح الدین صوبوں میں ایک کارروائی کے دوران داعش کے متعدد ٹھکانوں اور سرنگوں کو تباہ کردیا تھا –

عراقی فورسز نےسترہ نومبر دوہزار سترہ کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی مشاورت کی بدولت صوبہ الانبار کے شہر راوہ کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرالیا تھا اور اس شہر کی آزادی کے ساتھ ہی عراق میں عملی طور پر داعش کا خاتمہ ہوگیا تھا –

البتہ داعش کی شکست کے بعد بھی اس گروہ کے کچھ عناصر ابھی بھی عراق کے مختلف علاقوں میں موجودہیں جو وقفے وقفے سے عام شہریوں کو اپنے دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں –

دوہزارچودہ میں جب دہشت گرد گروہ داعش نے عراق کے بعض علاقوں اور شہروں پر قبضہ کرلیا تھا اس وقت وطن کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کے لئے مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی فتوے کے بعد عوامی رضاکارفورس الحشد الشعبی تشکیل پائی تھی اور دوہزار سولہ میں عراقی پارلیمان نے اس فورس کو ملک کی مسلح افواج کا حصہ قراردے دیا –

دوسری جانب عراق میں بدامنی اورعدم استحکام پیدا کرنے کی غرض سے علاقے کی رجعت پسند حکومتوں، صیہونی حکومت اور امریکا جیسی حکومتوں کے سامراجی اتحاد کی کوشش کے ساتھ ساتھ امریکا کی وزارت خزانہ نے عراق کے چار اعلی عہدیداروں منجملہ الحشد الشعبی کے تین اہم کمانڈروں پر پابندیاں عائد کردیں –

امریکا نے عوامی فورس عصائب الحق کے بھی دو کمانڈروں پر پابندی عائد کردی – عراق کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ان عراقی شخصیات پر ایک ایسے وقت امریکی پابندیوں کا عائد کیا جانا جب عراق میں ایک جانب سے پرتشدد مظاہروں کی لہر ہے اور دوسری جانب سے داعش کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ امریکا نہ صرف یہ کہ عراق میں حالات کے معمول پر لوٹنے کے حق میں نہیں ہے بلکہ عراق کے بارے میں وہ ایک نئے منصوبے پر کام کررہا ہے –

استقامتی محاذ کے خلاف اقدامات اور الحشد الشعبی کے کمانڈروں پر پابندیاں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ بعض غیر ملکی قوتیں اور خاص طورپر امریکا عراق میں اقتدار کے موجودہ ستونوں کو کمزور کرکے اس ملک میں اقتدار کا نیا ڈھانچہ وجود میں لانا چاہتا ہے اور امریکا کی کوشش ہے کہ عراق کا نیا سیاسی نظام ایسا ہو جس میں عراق کے استقامتی گروہوں یعنی عوامی رضاکار فورس کی کوئی جگہ نہ ہو اور سیکولر و لادین طاقتیں اقتدار پر قابض ہوجائیں –

امریکا کی یہ بھی خواہش ہے کہ دینی مرجعیت اقتدار اور ملک کے داخلی معاملات میں دخیل نہ ہوسکے اس کے علاوہ عراق کی کوئی آزاد خارجہ پالیسی نہ ہو اور بیشتر عرب حکومتوں کی مانند عراق کی حکومت بھی واشنگٹن کی تابع محض بن کر رہے اور اس ملک میں مذہب اور دینداری کو ختم کردیا جائے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button