اسلاماسلامی تاریختاریخ پیغمبرینسیرت نبی

Seerat un Nabi

سیرت النبی

Seerat un Nabi  سیرت النبی

واقعہ اصحاب فیل

حضور پر نور کی ولادت سے پچاس یا پچپن روز قبل اصحاب فیل کا واقعہ پیش آیا جو سیرت اور تاریخ میں معروف و مشہور ہے اور قران کریم میں اس کے بارہ میں ایک خاص سورت نازل ہوئی ۔ مفصل قصہ کتب اور تفاسیر میں مذکور ہے۔ مختصر یہ کہ نجاشی شاہ حبشہ کی جانب سے یمن کا حاکم ابرہہ نامی تھا۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ تمام عرب کے لوگ حج بیت اللہ کے لئے مکہ مکرمہ جاتے ہیںاور خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو اس نے یہ چاہا کہ عیسائی مذہب کے نام پر ایک عالیشان عمارت بناؤں جو نہایت مکلف و مرصع ہو۔ ت کہ عرب کے لوگ سادہ کعبہ کو چھوڑ کر اس مصنوعی پر تکلف کعبہ کا طواف کرنے لگیں۔ چنانچہ یمن  کے دارالسلطنت صناء میں ایک نہایت خوبصورت گرجا بنایا گیا۔ عرب میں جب یہ بات مشہور ہوئی تو قبیلہ کنانہ کا آدمی وہاں آیا اور پاخانہ کر کے بھاگ گیا۔ یہ ابن عباس سے منقول ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عرب نوجوانوں نے اس کے قرب اور جوار میں آگ جلائی ہوئی تھی ہوا سے اڑ کر اس گرجا میں لگ گئی اور گرجا جل کر خاک ہو گیا۔ ابرہہ نے غصہ میں آکر قسم کھائی کہ خانہ کعبہ کو منہدم اور مسمار کر کے سانس لوں گا۔ اسی ارادہ سے مکہ پر فاج کشی کی۔ راستہ میں جس عرب قبیلہ نے مزاحمت کی اس کو تا تیغ کیا ہیاں تک کے مکہ مکرمہ پہنچا۔
لشکر اور ہاتھی بھی ہمراہ تھے۔ اطراف مکہ میں اہل مکہ کے مویشی چرتے تھے ابرہہ کے لشکر نے یہ مویشی پکڑے جن میں دوسو اونٹ حضور جدِ امجد عبد المطلب کے بھی تھے۔ اس وقت قریش کے سردار اور خانہ کعبہ کے متولی عبد المطلب تھے۔ جب ان کو ابرہہ کی خبر ہوئی تو قریش کو جمع کر کے کہا کہ گھبراؤ مت مکہ کو خالی کردو۔ خانہ کعبہ کو کوئی منہدم نہیں کر سکتا ۔ یہ اللہ کا گھر ہے وہ خد اس کی حفاظت کرے گا۔ بعد ازاں عبد المطلب چند روساء قریش کو لے کر ابرہہ سے ملنے گئے۔ اندر اطلاع کرائی۔ ابرہہ نے عبد المطلب کا نہایت شاندر استقبال کیا۔ حق جل شانہ نے عبد المطلب کو بے مثال حسن و جمال، عجیب عظمت و ہیبت اور وقار و دبدبہ عطا فرمایا تھا جس کو دیکھ کر ہر شخص مرعوب ہو جاتا تھا۔
ابرہہ عبد المطلب کو دیکھ کر مرعوب ہو گیا اور نہایت اکرام اور اکرام کے ساتھ پیش آیا۔ یہ تو مناسب نہ سمجھا کہ کسی کو اپنے تخت پر اپنے برابر بٹھلائے البتہ ان کے اعزاز و اکرام میں یہ کیا کہ خود تخت سے اتر کر فرش پر ان کو اپنے ساتھ بٹھلایا۔ اثناء گفتگو میں عبد المطلب نے اپنے اونٹوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ابرہہ نے متعجب ہو کر کہا بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے مجھ سے اپنے اونٹوں کے بارہ میں کلام کیا اور خانہ کعبہ جو تمہارا اور تمہارےآبا و اجداد کا دین و مذہب ہے اس کے بارہ میں تم نے کوئی حرف نہیں کیا۔ عبد المطلب نے جواب دیا انا رب الابل اللبیت رب سمینعہ میں اونٹوں کا مالک ہوں اس لئے میں نے اونٹوں کا سوال کیا اور کعبہ کا خدا مالک ہے وہ خود اپنے گھر کو بچائے گا۔ ابرہہ نے کچھ سکوت کے بعد
عبد المطلب کے اونٹوں کو واپس کرنے کا حکم دیا۔ عبد المطلب
اپنے اونٹوں لے کر واپس آگئے اور قریش کو حکم دیا کہ کعبہ کو خالی کردیں اور تمام اونٹوں کو خانہ کعبہ کے اندر کردیا اور چند آدمیوں کو اپنے ہمراہ لے کر خانہ کعبہ کے دروازے پر حاضر ہوئے کہ سب گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں ۔ عبد المطلب دعا سے فارغ ہو کر مع اپنے ہمراہیوں کے پہاڑ پر چڑ گئے اور ابرہہ اپنا لشکر لے کر خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے بڑھا۔ یکا یک بحکمِ خداوندی چھوٹے چھوٹے پرندوں کے غول کے غول نظر آئے۔ ہر ایک کی چونچ اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں جو دفعتہً لشکر پر برسنے لگیں۔ خدا کی قدرت سے وہ کنکریاں گولی کا کام دے رہی تھیں۔ سر لر گرتی تھیں اور نیچے نکل جاتی تھیں ۔ جس پر وہ کنکریاں گرتی وہ ختم ہوجات تھا، غرض یہ کہ اس طرح ابرہہ کا لشکر تباہ و برباد ہوا۔ ابرہہ کے بدن پر چیچک کے دانے نمودار ہوئے جس سے اس کا تمام بدن سڑگیا اور بدن سے پیپ اور لہو بہنے لگا۔ یکے بعد دیگرے ایک ایک عضو اس کا کٹ کٹ کر گرتا جاتا تھا بال آخر اس کا سینہ پھٹ پڑا اور دل باہر نکل آیا اور اس کا دم آخر ہوا۔ جب سب مرگئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک سیلاب بھیجا جو سب کو بہا کر دریا میں لے گیا۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button