اسلاماسلامی تاریخاہل بیتتاریخ پیغمبرینترکیحزب اللہ حقویردیسیرت نبیفوٹو گلریقرآنمثالی شخصیاتمشرق وسطی

آیت مودت شریف کی تفسیر/استاد حزب اللہ حقویردی(حلمی کوجا آسلان)، سنّی عالم دین، ترکی

آیت مودت شریف کی تفسیر
استاد حزب اللہ حقویردی(حلمی کوجا آسلان)، سنّی عالم دین، ترکی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

ذٰلِكَ الَّذِیْ یُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِؕ-قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ-وَ مَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِیْهَا حُسْنًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ(23)

یہ آیت شریف رسول اکرم صلى الله علیه و آله و سلم کی اہلبیت کی شان کی دلیل ہے
اِس آیت سے مراد رسول اللہ کی رسالت کا اجر اہلبیت سے محبت اور یاری کرنے اور سمجھنے میں ہے
“یہ ہے وہ جس کی خوش خبری دیتا ہے اللہ اپنے بندوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت اور جو نیک کام کرے ہم اس کے لیے اس میں اور خوبی بڑھائیں بےشک اللہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے”
(سورۃ الشوریٰ/ 23)
اہل علم و اہل انصاف کے ہاں یہ بات واضع ہے[1] کہ آیت شریف میں قربیٰ سے مقصد اہلبیت ( حضرت علی و فاطمہ اور حضرت حسن و حسین ہیں) ہے
بلخصوص یہ حدیثِ شريف اِس بات کو واضح طور پر کچھ اِس طرح بیان کرتی ہے؛ رسول ﷲ فرماتے ہیں؛ تم لوگ کہ ﷲ تمہیں نعمت دیتا ہے ﷲ سے محبت کرو، ﷲ کی محبت سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت سے میری اہلبیت سے محبت کرو [2]
اور یہ حدیث بھی اِس ہی معان میں ہے؛ رسول خدا کے ہاں سب سے افضل حضرت فاطمہ اور مردوں میں حضرت علی تھے[3]
اور یہ حدیث؛ رسول ﷲ نے علی، فاطمہ، حسن و حسین علیہ السلام سے فرمایا کہ؛ میں اُس سے قتال کرونگا کہ جس سے تم لوگ قتال کرو، اور میں اُس سے صلح کرونگا کہ جس سے تم لوگ صلح کرلو[4]
اِن احادیث کے باوجود، ایک ایمان و ضمیرِ کامل انسان کا اعتراض کرنا ناممکن ہے؟ فرض کریں کہ اگر یہ احادیث نا بھی موجود ہوتیں تو کیا پھر بھی رسول ﷲ کی اہلبیت سے محبت و الفت ہم مؤمنین کے اُپّر وفاداری کا کرض نہیں ہے؟
انکشافات؛
[1]
الدرالمنثور: (امام سویوطی)؛ المیزان: (علامہ طباطبایی)؛
الکشّاف:(امام الزمحشری)؛ ابن الکثیر؛
مسند:(الإمام أحمد بن حنبل)
اِس موضوع کے بارے میں اِن روایات کا بھی متعالہ کرنا ضروری ہے؛
روایت میں آیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پوچھا گیا؛ یا رسول ﷲ جن کی محبت ہم پر واجب ہے وہ رشتے دار کون ہیں؟ فرمایا؛ علی و فاطمہ اور اِن کی اولادیں(با سبب اِس کے حسد کی وجہ سے) حضرت علی نے رسول ﷲ سے شکایت کی کہ یہ لوگ مجھ سے حسد کررہے ہیں! تو رسول‌ ﷲ نے فرمایا کیا تم راضی نہیں ہو کہ تم جنّت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار اشخاص میں سے ہو؟ کہ وہ لوگ، میں اور تم، حسن اور حسین ہیں (الدرلمنثور؛ ابن الکثير)
کربلا کی آفت کے بعد حضرت حسین کے فرزند علی(زین العابدین، سجّاد) جب أثارت کی حالت میں شام لائے گئے تو اُن شامیوں میں سے ایک نے کہا: کہ ﷲ پر حمد ہو کہ اُس نے تم لوگوں کو قتل کیا اور تمہاری جڑوں کو خشک کیا اور اس فتنے کو ختم کردیا! تو علی بن حسین علیہ السلام نے کہا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ اُس آدمی نے کہا ہاں.کیا سورۃ الآل حمیمی (سورۃ الشوریٰ) پڑھی ہے؟ اِس سوال پر آدمی نے کہا کہ قرآن پڑھا ہے مگر سورۃ آل حمیمی نہیں پڑھی! کیا تم نے یہ آیت شریف نہیں پڑھی کہ، میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت! آدمی: کیا وہ لوگ تم ہو؟ تو علی بن حسین نے فرمایا کہ ہاں وہ لوگ ہم ہیں! (الدر المنثور، ابن الکثیر)
ابن جرير سے روایت ہے، أبو إسحاق نے عمر بن شعیب سے، میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت، اِس آیت کے بارے میں پوچھا؛ تو اُس نے کہا کہ رسول ﷲ کے رشتہ دار…؛ ابن عباس سے کچھ اِس ترہاں روایت ہے کہ؛ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت. جب یہ آیت نازل ہوئی تو پوچھا گیا کہ وہ لوگ کون ہیں کہ اُن لوگوں کی محبت ہم پر واجب کی گئ ہے… رسولِ خدا نے فرمایا؛ فاطمہ اور اُنکی أولادیں. (ابن الکثیر)

انقشاف؛ یہ مقالہ ترکی کے سنّی عالم دین اُستاد حزب اللہ حقویردی(حلمی کوجاآسلان)، کی کتاب “اِمام خمینی کی شخصیت میں ثقافتِ عاشورہ کی تجلِّیات” سے ترجمہ و اقتباس کی گئ ہے.

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button