عراق نے شام سے ملحقہ سرحد پر واقع القائم – البوکمال بارڈر دوبارہ کھول دیا۔
یہ راستہ آٹھ سال سے بند تھا۔ راستہ کھلنے سے اب دو ممالک شام اور عراق کے درمیان آمد و رفت اور تجارتی لین دین ایک نئی رفتار سے آگے بڑھے گی اور دونوں ہی ممالک اس طاقتور مزاحمتی محاذ کا حصہ ہیں کہ جس نے مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا اور اسرائیل نیز اس کے اتحادیوں کو دھول چٹا دی ہے۔
عراق اور شام کے درمیان کئی سال تک بند رہنے والا زمینی راستہ کھلا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بہت ہی اہم اسٹراٹیجک راستہ پورا ہوگیا جو چین سے لے کر بحیرہ روم تک پھیلا ہوا ہے اور اس راستے پر کہیں بھی امریکا، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
عراق کے وزیر اعظم عادل عبد المہدی نے یہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ کرکے حقیقت میں امریکی دباؤ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اسرائیل کو بھی زوردار پھٹکار لگائی ہے۔ عراقی حکومت نے صاف ظاہر کر دیا ہے کہ وہ امریکا و اسرائیل مخالف مزاحمتی محاذ کی مضبوطی کی کڑی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ امریکا نے جنگ عراق کے دوران اور اس کے بعد عراق پر اپنے قبضے کے دوران 7 ٹریلین ڈالر خرچ کئے تھے وہ سب برباد ہوگئے۔ امریکا نے یہ خرچ اس لئے کیا تھا کہ اسرائیل محفوظ ہو جائے۔ ہمیں تو اب بھی احساس ہو رہا ہے کہ عراق کا اگلا قدم ان 6 ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کا ہوگا جو اس وقت عراق میں موجود ہيں۔
عراق اور شام نے یہ قدم اٹھا کر یہ تو بتایا ہی ہے کہ اب اس علاقے میں داعش جیسے انتہا پسند گروہوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہ گئی ہے جنہوں نے گزشتہ پانچ سال سے اس علاقے پر قبضہ کر رکھا تھا بلکہ ساتھ ہی ایران، شام اور لبنان کے درمیان اس بے حد اہم اور اسٹراٹیجک راستے کے کھولے جانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس زمینی راستے سے اب میزائل، ٹینک اور دوسرے وسائل جائیں گے، ان کے لئے ائیرپورٹ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ دمشق ائیرپورٹ پر اسرائیل نے متعدد بار حملے کئے تھے اور کہا تھا کہ وہ ہتھیاروں کی سپلائی کو ناکام بنانے کے لئے یہ حملے کر رہا ہے۔
شامی عوام کو یہ بارڈر کھلنے سے بہت فائدہ ہوگا جس کا امریکا اور عرب ممالک نے محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس سے سیاسی، تجارتی اور اجتماعی تعلقات میں مزید مضبوطی آئے گی اور اس سے ظالمانہ محاصرہ ختم ہو جائے گا۔ اس راستے سے شام اپنی سبزیاں، پھل، دالیں، زراعت کے سامان اور صنتعتی پیداوار کے لئے بڑے بازار تک پہنچ جائے گا جبکہ شام سے بڑی تعداد میں زائرین عراق جائیں گے۔
شام کے اسپتالوں میں لوگ علاج کے لئے آئیں گے کیونکہ آج بھی شام کے اسپتال بہت سے امیر ممالک کے اسپتالوں سے اچھے اور بہتر ہیں۔
یہ بھی ایک اچھا اتفاق ہے کہ یہ راستہ تب کھلا ہے جب موسم سرما کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور اس موسم میں شامی عوام کو ایندھن کی ضرورت پڑتی ہے جو اب بغیر کسی رکاوٹ کے شام پہنچے گا۔
ایران کے تیل ٹینکر نے شاما میں تیل پہنچایا لیکن اسے شام پہنچنے میں تین مہینے کا وقت لگ گیا کیونکہ مصر نے اس ٹینکر کے لئے سوئز نہر کا راستہ دینے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے ایرانی تیل ٹینکر کو بہت طولانی سفر کرنا پڑا۔
یہ شام اور عراق ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے عرب کے لئے جشن کا وقت ہے کیونکہ دو دوست ممالک نے امریکا اور اسرائیل کی تقسیم کی سازش کو ناکام بنایا ہے۔
آخر میں ہم یہ آرزو کرتے ہیں کہ اب اردن بھی امریکا کے دباؤ کو خارج کرتے ہوئے شام سے ملحقہ نصیب-جابر بارڈر کھول دے۔ یہ بہت بے عزتی کی بات ہے کہ اردن امریکا کے دباؤ میں رہے۔