ایرانایشیاپاکستانمثالی شخصیاتمشرق وسطی

تصویری رپورٹ| ملی یکجہتی کونسل کے وفد کی آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی سے ملاقات

تصویری رپورٹ| ملی یکجہتی کونسل کے وفد کی آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی سے ملاقات
آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا: دنیائے اسلام کے پاس وحدت کے سوا سب کچھ ہے اس لئے تو امریکہ مسلمانوں پر مسلط ہے۔

انہوں نے کہا: آپ اتحاد و وحدت کے لئے ہمارے ملک میں تشریف لائے ہیں اور یہ بہت بڑی توفیق ہے جو خدا نے آپ کو عنایت کی ہے۔

اس شیعہ مرجع تقلید نے کہا: آپ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ وہ وحدت کے منادی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو داعش کے شر سے نجات دی اور امریکہ نے بھی اسی لیے انہیں شہید کیا۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے دو ملتوں ایران اور پاکستان کی دوستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ملت ایران پاکستانی لوگوں کو بہت چاہتی ہے کیونکہ پاکستان کے لوگ مخلص ہیں اور اسلام کی عظمت و سربلندی کے خواہاں ہیں۔

اس مرجع تقلید نے مزید کہا: دو ملتوں کے درمیان باہمی رابطہ زیادہ ہونا چاہیے تاکہ ان کے درمیان اتحاد و وحدت کے رشتے میں مزید استحکام آئے۔

انہوں نے عالمی استکبار کے مقابلے میں وحدت و مزاحمت کو کامیابی کا راز قرار دیتے ہوئے کہا: ملت عراق نے امریکہ کے زیرتسلط ہونے کے باوجود عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملت کسی چیز کا ارادہ کر لے تو وہ اس میں ضرور کامیاب ہوتی ہے۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا: ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو اتحاد و وحدت کا درس دیا جائے۔ تکفیری اپنے بچوں کو تکفیر کا درس دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے ہائرسکینڈری اسکولز کے نصاب کی کتب میں لکھا ہے کہ جو افراد قبروں کا احترام کرتے ہیں ان کی جانیں اور اموال حلال ہیں۔

انہوں نے کہا: اب لوگوں کو معلوم ہے کہ تکفیری بشریت کے دشمن ہیں اور یہی آگاہی لوگوں کی بیداری اور ان افراد سے ان کی دوری کا باعث ہے۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا: فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے وحدت کی بنیادوں کو مضبوط بنانا چاہیے تاکہ ہم بہتر انداز سے اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ کرسکیں۔

دینی علوم کے اس نامور استاد نے کہا: امریکہ نے ایران پر انتہائی سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر کے سوچا تھا کہ شاید ایران ٹوٹ جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور یہ سب مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ دیگر اسلامی ممالک کو بھی امریکہ کے مقابلے میں مزاحمت کرنی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button