پاکستانعربمشرق وسطیہندوستان

پاکستان نے بھارتی پائلٹ ابھینندن کو انسانی بنیاد پر نہیں بلکہ سعودی عرب کے دباؤ میں چھوڑا تھا

جنگ نے برطانوی نشریاتی ادارے کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ 28 فروری 2019کو جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا ماحول تھا اور پاکستان نے بھارتی جنگي طیارہ گرا کر اس کے پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کرلیا تھا توسعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو آزاد نہ کیا تو سعودی عرب پاکستان کا ساتھ چھوڑ دےگا، لہذا پاکستان نےابھینندن کو انسانی بنیاد پر نہیں بلکہ سعودی عرب کے دباؤ میں چھوڑا تھا

اطلاعات کے مطابق پاکستان نے سعودی دباؤ پر ابھینندن کو چھوڑا تھا28فروری 2019کو جب ابھینندن ورتمان کی اہلیہ تنوی ماروا کے موبائل فون پر سعودی عرب کے نمبر سے ایک کال آئی تو وہ حیران بھی ہوئیں اور پریشان بھی کیونکہ دوسری جانب سے لائن پر انھیں پاکستانی جیل میں قید ان کے شوہر ونگ کمانڈر ابھینندن کی آواز سنائی دی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کاکہناہےکہ ریاض نے اسلام آباد کو دھمکی دی کہ اگر اس نے کشیدگی کم نہ کی توسعودیہ ،پاکستان کیساتھ کھڑا نہیں رہے گا۔

اطلاعات کےمطابق برطانوی نشریاتی ادارے کاکہناہےکہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے یہ کال سعودی عرب سے روٹ کی گئی تھی،مبینہ طور پر پاکستانی اہلکار ابھینندن کی اہلیہ سے فون پر ان کی بات کروا رہا تھا، جاسوسی کی دنیا میں اسے ” گڈ کاپ، بیڈ کاپ تکنیک ” کہا جاتا ہے اور اس کا مقصد کسی شخص سے زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے،پھر اسی روز عمران خان نے پاکستانی پارلیمان میں اعلان کیا کہ ان کا ابھینندن کو قید میں رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور وہ اسے چھوڑ رہے ہیں۔

پاکستانی ارکانِ پارلیمان نے ویسے تو تالیاں بجا کر ان کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا لیکن کئی حلقوں میں سوال بھی اٹھے کہ کیا یہ سمجھداری کا فیصلہ ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلےابھینندن کی رہائی کا عندیہ دیا تھا۔ دوسری جانب انڈیا کے سیاسی رہنماؤں نے یہ تاثر دینے میں کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ عمران خان نے انڈیا کے سخت رخ سے گھبرا کر یہ قدم اٹھایا۔

انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کے صدر امت شاہ نے 5مارچ کو ریاست جھارکھنڈ کے ایک انتخابی جلسے میں کہا کہ ʼانہوں نے ہمارے پائلٹ کو پکڑا لیکن مودی جی کی وجہ سے انہیں 48گھنٹے کے اندر چھوڑنا پڑا،امت شاہ کے اس بیان سے پہلے ہی عندیہ ملنے لگا تھا کہ ابھینندن کو چھوڑا جانے والا ہے۔

28 فروری کو ہی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کرنے ہنوئی پہنچنے والے امریکی صدر ٹرمپ سے جب صحافیوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ʼمیں سمجھتا ہوں جلد ہی آپ کو پاکستان سے ایک اچھی خبر سننے کو ملے گی ہم اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جلد ہی یہ حل ہو جائے گااور صدر ٹرمپ کے اس دعوے کے چند گھنٹے بعد ہی پاکستان نے ابھینندن کو انڈیا کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ سعودی عرب نے بھی اہم کردار ادا کیا، پلوامہ حملے کے بعد سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پہلے پاکستان کا دورہ کیا پھر انڈیا کا۔

انڈیا کے دفاعی ماہرین کے خیال میں ان دوروں کے دوران شہزادہ سلمان نے سفارتی لحاظ سے ایک تنی ہوئی رسّی پر چلتے ہوئے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں تعاون کی تعریف کی وہیں انڈیا میں انہوں نے وزیر اعظم مودی کی اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا کہ دہشتگردی کو کسی بھی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

یہی نہیں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اسلامی ممالک کے اجلاس میں اس دوران انڈیا کی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بات کی لیکن انڈیا اور پاکستان کے درمیان اس معاملے کے حل میں سعودی عرب کی دلچسپی کی وجہ کیا تھی۔

سعودی عرب میں انڈیا کے سفیر رہ چکے تلمیذ احمد کا خیال ہے کہ ʼسعودی عرب اپنے ایران مخالف اشتراک میں پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے اس کے علاوہ اس کی انڈیا کو ایران سے دور کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

بالاکوٹ واقعہ کے بعد پاکستان نے دنیا کے بااثر ممالک اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبران سے رابطہ کر کے انہیں مطلع کیا کہ انڈیا بالاکوٹ حملے کے نتائج سے مطمئن نہیں ۔

کشیدگی کے دوران سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ عادل الجبیر امن کا پیغام لے کر اسلام آباد گئے، اسی وقت انڈیا میں سعودی عرب کے سفیر ڈاکٹر سعود محمد نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی۔

پلوامہ حملے سے قبل مودی حکومت نے سعودی حکومت کو بہت زیادہ توجہ دینی شروع کر دی تھی۔ شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذاتی تعلقات مضبوط ہو چکے تھے۔

سفارتی معاملوں کے ماہر ہرش پنت نے بتایا کہ ’سعودی عرب نہیں چاہتا تھا کہ یہ معاملہ اتنا بڑھے اور اسے واضح طور پر دنیا کے سامنے انڈیا اور پاکستان میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا پڑے۔

ان کے مطابق سعودی عرب نے ʼبیک چینل سے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس معاملے کو مزید نہ بڑھنے دے۔

اس نے انڈیا سے بھی بات کی اور جب اسے انڈیا سے اس بات کے اشارے مل گئے کہ کوئی بیچ کا راستہ نکل آنے پر انڈیا کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تو اس نے پاکستان سے رابطہ کیا۔

’سعودی عرب نے پاکستان پر واضح کر دیا کہ اگر اس نے کشیدگی کم کرنے کی کوشش نہیں کی تو سعودیہ پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں رہ سکے گا۔ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ʼسعودی عرب پر امریکہ کا دباؤ تو تھا ہی لیکن سعودی عرب کے اس موقف سے پاکستان کو لگا کہ وہ اسلامی ممالک کے درمیان اکیلا رہ جائے گا۔

پاکستان مغربی دباؤ برداشت کرنے کے لیے کسی حد تک تیار ہو سکتا تھا لیکن سعودی عرب کے دستور سے منحرف نہیں ہوسکتا جبکہ سعودی کا دستور بھی مغربی پالیسی پر مبنی تھا ، پاکستان پر خوف طاری ہوگيا کہ اسلامی ممالک بھی اس کا ساتھ دینے میں گھبراتے ہیں۔

قومی سلامتی کے مشیروں کی کونسل کے رکن تلک دیویشور کا کہنا ہے کہ ʼپاکستانی حکمران نے یہ ضرور سوچا ہوگا کہ اگر اسٹینڈ آف بڑھتا ہے تو پاکستان کا ساتھ کون کون سے ممالک دیں گے۔

اگر ان کو یہ لگتا کہ اس معاملے میں مغربی یا اسلامی ممالک اس کا ساتھ دیں گے تو شاید کشیدگی کو اور بڑھانے کے بارے میں وہ سوچ سکتا تھا لیکن جب انھیں لگ رہا ہو کہ اس معاملے میں اکیلا پڑ جانے کا خطرہ ہے تو ان کے سامنے ابھینندن کو چھوڑ کر کشیدگی کم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ذرائع کے مطابق پاکستان نے ابھینندن کو انسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر آزاد کیا اور سعودی عرب نے اس سلسلے میں بھارت کیم عاونت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button