ایرانمشرق وسطی

ایران کی جانب سے یمنی جیل پر سعودی بمباری کی مذمت

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صوبہ ذمار کی جیل پر سعودی جنگی طیاروں کی بمباری کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اتوار کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزارت خارجہ کےترجمان سید عباس موسوی نے کہا کہ قیدیوں کی حراست گاہ پر بمباری یمن میں سعودی اتحاد کا تازہ جنگی جرم ہے، اور سعودی عرب کے جنگی جرائم کی فہرست میں اس کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ذمار جیل ،عالمی ریڈ کراس سوسائٹی کی لسٹ میں شامل تھی اور اس عالمی ادارے کے نمائندوں نے متعدد بار اس کا معائنہ بھی کیا تھا۔سید عباس موسوی نے یمن میں سعودی عرب کے تازہ جرائم پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جارح سعودی اتحاد نے یہ گھناونا جرم بھی امریکہ اور مغربی ملکوں کے فراہم کردہ ہتھیاروں سے انجام دیا ہے۔ادھر یمن کی وزارت صحت کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ ذمار کی المقصوف جیل سے سعودی اتحاد کے وحشیانہ حملے میں مرنے والوں کی تعداد ساٹھ ہوگئی ہے جبکہ سو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ جائے وقوعہ پر امدادی کام جاری ہے اور تباہ شدہ جیل کے ملبے تلے دبے افراد کو باہر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔دوسری جانب یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام نےالمقصوف جیل پر سعودی اتحاد کے وحشیانہ حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیل پر حملہ کرکے سعودی حکام نے اپنے وحشی پن کا ثبوت پیش کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس جیل میں قیدیوں کے علاوہ سیکڑوں عام شہری بھی ساکن تھے۔محمد عبدالسلام نے کہا کہ سعودی امریکی جارحیت کا پیغام یہ ہے کہ عام شہری جہاں بھی ہوں سعودی عرب کے لیے ان کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے-یمن کے قیدیوں کے امور کی کمیٹی کے سربراہ عبدالقادر مرتضی نے بتایا ہے کہ ذمار کی المقصوف جیل میں ایک سو ستر قیدی تھے اور سعودی بمباری میں جیل کی پوری عمارت زمین بوس ہوگئی ہے۔یمن کی وزارت صحت کے ترجمان یوسف الحاضری نے عالمی اداروں اور تنظیموں سے امدادی کاموں میں تعاون کی اپیل کی ہے۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ، برطانیہ اور بعض دیگر ملکوں کے تعاون سے سن دوہزار پندرہ سے یمن کو وحشیانہ جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ یمنی شہری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ کئی لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button