عراقمشرق وسطی

مقتدی صدر کے بیان سے کیوں ناراض ہوئے عرب ممالک ؟ + مقالہ

مقتدی صدر عراق کے صدر دھڑے کے فائر برانڈ رہنما کہے جاتے ہیں ۔ انہوں نے ایک بیان دیا جس پر سعودی عرب اور بحرین دونوں ہی ممالک میں حکومتی حلقے میں شدید ناراضگی پھیل گئی اور یہ مسئلہ خارجہ پالیسی کے سطح پر بحران کا سبب بننے لگا ۔

حالانکہ مقتدی صدر وہ رہنما ہیں جن پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے متعدد بار زور آزمائی کی، انہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر بلایا گیا ۔ محمد بن سلمان اور محمد بن زائد نے ان سے ملاقاتیں کیں ۔ سعودی عرب اور امارات کو یہ امید تھی کہ مقتدی صدر عراق میں ان کے لئے پراکسی بن سکتے ہیں تاہم مقتدی صدر کے بیان سے اب ہنگامہ مچ گیا ہے۔

مقتدی صدر نے اپنے بیان میں علاقے کے ممالک میں جاری بحرانوں کے حل کے لئے متعدد تجویز دی ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یمن اور بحرین میں جنگ فوری طور پر بند ہو اور ان ممالک کے حکام فورا حکومت سے الگ ہو جائیں ۔ اس کے جواب میں بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے ٹویٹ کیا کہ مقتدی صدر نے عراق کے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے بحرین کو نشانہ بنایا جبکہ انہیں چاہئے کہ ایران کی مذمت کریں، اللہ اس طرح کے بیوقوف افراد سے عراق کی حفاظت کرے ۔

اس ٹویٹ پر عراق کے اندر سے شدید رد عمل سامنے آیا اور بغداد میں بحرین کے سفارتخانے کے سامنے مظاہرے شروع ہوگئے ۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ عراق کی وزارت خارجہ نے بحرینی وزیر خارجہ کے بیان پر شدید رد عمل ظاہر کیا اور اس بیان کو بہت ہی جارح بیان کا نام دیا ۔

یہاں ایک بحث یہ بھی شروع ہوگئی ہے کہ بحرین سے اتنا شدید بیان کیوں سامنے آیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ دور میں حالات بہت نازک ہیں اور عرب دنیا کی وہ حکومتیں کافی پریشان نظر آ رہی ہیں جہاں آمریت ہے ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ دو عرب ممالک الجزائر اور سوڈان میں حالیہ مہینوں میں عوامی انقلاب رونما ہوئے ہیں اور دونوں ہی ممالک میں انقلابات کو کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ الجزائر میں تو انقلاب میں شدت آتے ہی فوج نے عوام کی حمایت شروع کر دی اور صدر بوتفلیقہ کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا ۔

سوڈان میں عمر البشیر کو صدارتی عہدے سے دست بردار ہوکر جیل جانا پڑا ۔ سوڈان میں بھی فوج نے انقلابیوں کے مطالبے قبول کئے تاہم اس میں چار مہینے کا وقت لگ گیا ۔ در ایں اثنا جھڑپوں میں 50 سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے ۔ بہرحال سوڈان میں بھی فوج کو انقلابیوں کے مطالبے قبول کرنا پڑے۔

بحرین اور سعودی عرب میں 2011 سے ہی عوامی تحریک جاری ہے جسے دونوں کی ممالک کی حکومتوں نے طاقت کے زور پر دبا رکھا ہے لیکن دونوں ہی آمر حکومتیں کافی خوفزدہ ہیں ۔

اس لئے کہ سوڈان اور الجزائر میں جو کچھ ہوا اس سے ثابت ہو گیا کہ عوام میں بیداری بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے عوامی انقلابات کو ناکام بنانا یا ہائی جیک کرنا بہت سخت ہو گیا ہے۔

سعودی عرب نے حال ہی میں 37 ملزمان کو بے بنیاد الزامات اور ناقص عدالتی کاروائیوں کے بعد سزائے موت دے دی ۔ ان افراد کے سر قلم کر دیئے گئے ۔

اقوام متحدہ، یورپی یونین سمیت متعدد ممالک اور اداروں نے ان سزاؤں پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور عدالتی کاروائیوں کے بارے میں سب نے کہا کہ یہ قابل اعتماد نہیں ہے۔

بحرین کی آل خلیفہ حکومت بھی مخالفین کی سرکوبی کر رہی ہے ۔ اس نے بڑی تعداد میں مظاہرین کی شہریت منسوخ کر دی ہے ۔

ان حالات کے مد نظر ان حکومتوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مقتدی صدر نے جس طرح کا بیان دیا وہ عوامی تحریک میں شدت کا سبب بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button