تحریک حماس نے آل سعود سے مطالبہ کیا ہے کہ ماہ مبارک رمضان شروع ہونے سے پہلے بے بنیاد الزامات کے تحت سعودی عرب ميں قید 60 فلسطنیوں کے کیس کو ختم کیا جائے۔
فارس نیوز کی رپورٹ کے مطابق حماس نے ایک بار پھر سعودی حکام پر زور دیا ہے کہ 80 سالہ فلسطینی قیدی ” محمد الخضری” سمیت تمام فلسطینی کو رہا کیا جائے جنہيں آل سعود نے بے جا الزامات کے تحت گزشتہ ایک سال سے قید کیا ہوا ہے۔
حماس نے کہا ہے کہ محمد الخضری شدید طور پر بیمار ہيں اور کورونا کی وبا کے پیش نظر انہيں فوری طور رہا کیا جائے۔
بیرون ملک حماس کے پریس سیکریٹری ” رافت مرہ” نے اناتولی نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں سعودی حکام پر زور دیا کہ محمد الخضری کو جو متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں ان کے دیگر ساتھیوں سمیت فوری طور پر رہا کرے۔
انہوں نے کہا کہ محمد الخضری 80 سال سے زيادہ عمر کے ہیں اور بیک وقت کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
رافت مرہ نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ حکومت آل سعود ملت فلسطین اور ان کے نصب العین کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے تمام فلسطینی قیدیوں کو ماہ مبارک رمضان کے آغاز سے قبل رہا کردے گی۔
حماس کے بین الاقوامی امور کے نگراں دفتر کے رکن ” باسم نعیم” نے کہا ہے کہ یہ تمام افراد دسیوں سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں اور سعودی معاشرے کا ہی حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی ترقی و پیشرفت میں مقامی لوگوں کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے ہیں، تاہم ان کو بے جا الزامات کے تحت جیلوں میں بند کردیا گیا ہے۔
باسم نعیم نے کہا کہ ان قیدیوں پر دہشت گروہوں کی حمایت کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے، جبکہ ان افراد نے ایسا کوئی اقدام نہيں کیا ہے جس سے سعودی مفادات اور اقتدار اعلی کو کوئي نقصان پہنچا ہو۔
عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق 60 سے زيادہ فلسطینیوں خصوصا 80 سالہ محمد الخضری اور ان کے جواں سال فرزند کو سعودی حکام نے اٹھالیا ہے اور ان کی گرفتاری کے بارے میں تاحال کوئی قابل قبول جواز پیش نہيں کرسکی ہے۔
ریاض اور صیہونی حکومت کی بڑھتی ہوئی قربتوں کے پیش نظر خيال کیا جاتا ہے کہ آل سعود نے ان افراد کو حماس کو اپنے دباؤ میں لینے کے لئے ایک حربے کے طور پر گرفتار کیا ہے۔