اسلاماہل بیتحزب اللہ حقویردیمثالی شخصیات

آیت ولایت المائدہ: ۵۵

مؤلف؛ اُستاد حلمی کوجا آسلان سنّی عالمِ اسلام،ترکی

آیات ولایت

تمہارے دوست صرف اللّٰہ، اس کا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ المائدہ: ۵۵

یہ بات واضح  ہے کہ اس آیت میں ولیکم سے شروع ہونے والے عبارے کے آخر میں مذکور ” رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینے والے مومنین” سے مراد امام علی ع ہیں۔ لہذا مسجد میں آنے والے ایک مسکین سائل کو عین اسی وقت امام علی ع نے نماز میں رکوع کی حالت میں اپنی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا۔ اس مسکین سائل نے انگوٹھی انگلی سے اتار لی ۔ جس کے بعد وہاں موجود رسول اکرم ص پر یہ آیت نازل ہوئی۔

یہ آیتِ کریمہ اس موضوع کے عین وسط میں موجود ہے۔ لہذا اس آیت کا سباق مائدہ ۵۴ اور اس کا سیاق ۵۶ کا حقیقی معنی و مفہوم بھی اس۔ آیت کے ساتھ صراحتاً سامنے آتا ہے۔

اگر اس آیت میں مذکور یہ بات ظاہر ہو ہو جائے کہ ” ایمان والے تمہارے ولی۔۔۔” کون ہیں؟ تو مائدہ ۵۴ اور ۵۶ اور اس کے ساتھ مائدہ ۶۷ کا بھی معنی صراحت کے ساتھ آشکار ہوجائے گا۔

چنانچہ اکثر مفسرین کا مذہبی، قومی اور سیاسی تعصب کا شکار ہونا یا پھر کسی غفلت کی سبب صراحتاً آشکار اس آیتِ شریف کے حقیقی معنی کو کافی حدتک مُغلق و مُبہم کردیا۔ لیکن وعدِ الٰہی کے تحت محفوظ اس عظیم کتابِ کریم کی اس آیت کے اصلی مفہوم کو پھر انہیں تعصب کا شکار اہل علم کو بھی اعتراف کرنا پڑا۔

مثال کے طور پر، ابن عباس نے کہا ہے کہ یہ آیت علی ابن طالب ع کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

عبداللہ ابن سلام نے کہتے ہیں؛ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللّٰہ ص سے کہا کہ، میں نے دیکھا کہ علی ع نے رکوع کی حالت میں ایک فقیر کو اپنی انگوٹھی تصدق کے طور پر دی۔۔ اس لیے ہم علی ع کو اپنا ولی بنالیں گے۔ ابوذرّ رض سے مروی ہے کہ؛ ایک دن رسول اللّٰہ کے ساتھ نمازِ ظہر ادا کرہے تھے کہ اچانک مسجد میں ایک فقیر آیا اور وہاں موجود لوگوں سے کچھ مانگا۔ لیکن اس کو کسی نے کچھ نہیں دیا۔ پھر اس فقیر نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا، ‘ اے اللّٰہ گوا رہنا’ کہ میں نے رسول اللّٰہ کی مسجد میں آکر مانگا مگر مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا۔ اس پر حضرت علی ع نے رکوع کی حالت میں اس فقیر کو اپنی انگوٹھی کی طرف اشارہ کیا اور اس مسکین سائل نے جاکر انگوٹھی لےلی۔ بنابریں رسول اللّٰہ ص نے فرمای: اے اللّٰہ، میرے بھائی موسٰی نے تجھ سے ارض کیا تھا کہ، ” اے میرے ربّ! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔۔۔ اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر(مد دگار) کردے؛ میرے بھائی ہارون کو!۔۔۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما!۔۔۔ اور اسے میرے کام(ذمےداری) میں شریک کردے۔ ( طٰہٰ: ۳۲ـ۲۵) کہا تھا؛ جس پر تو نے فرماتے ہوئے ‘ عنقریب تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ذریعے قوت دیں گے اور تم دونوں کو سطوت عطا فرمائیں گے (قصص: ۳۵) یہ آیت نازل کی تھی۔( فخرالدین رازی، مفاتح الغیب)

اے میرے اللّٰہ میں تمہارا نبی و ممتاز محمد تجھ سے یہ کہتا ہوں کہ: ‘ میرا سینہ کھول دے۔ میرے کام کو آساں کردے۔ میرے لیے، میرے گھر والوں میں سے علی ع کو میرا وزیر کردے۔ اس کے ذریعے میری کمر مضبوط فرما۔ کہا۔ پھر اس کے بعد ابوذرّ رض فرماتے ہیں کہ ابھی رسول اللّٰہ نے اپنا کلام ختم ہی کیا تھا کہ جبری ع ائے اور کہا پڑھو ” انما ولیکم اللّٰہ و رسولہ۔۔۔” یعنی سورہ المائدہ کی ۵۵ وی آیت نازل ہوئی ۔ ( فخرالدین رازی، مفاتح الغیب)

( لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی علمی شخصیت کو بھی تعصب نے اس کدر گھیرے میں لے لیا کہ حسّی، غیرعلمی تاویل اور تذکرہ سے گریز نہ کرسکے۔ ) مؤلف

ابن کثیر نے بھی “۔۔۔ تمہارے دوست صرف اللّٰہ، اسکا رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت

میں زکوٰۃ دیتے ہیں”۔ مائدہ ۵۵ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ، حضرت علی ع نے رکوع کی حالت میں ایک فقیر سائل کو اپنی انگوٹھی دی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ابن جریر، ابن خاتم اور ابن مردویہ سے ۱۰ عد د حدیث روایت کیں ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)

امام سیوطی نے خلاصتا بیان کیا ہے کہ، ابن عباس سے اتفاق کے ساتھ مروی ہے کہ؛ علی ابن طالب ع نے نماز میں رکوع کی حالت میں مسجد میں آنے والے فقیر کو اپنی انگوٹھی دی جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (در المنثور: ۲​۲۹۳)

امام زمخشری نے الکشاف: ۱​۶۴۹ میں مذکور آیت کے اسبابِ نزول کے بارے میں حضرت علی ع کے مذکور واقعہ بیان کرنے کے بعد حاکم، ابن ابو خاتم، ابن مردویہ اور طبرانی سے حدیث روایت کر کے اس بات کی تائید کی ہے۔

المیزان: ۶​۵ء۲۵ میں اس آیت کے اسبابِ نزول و حقیقی معنی کے حوالے سے علمی بحث ومباحثہ کرتے ہوئے تمام موافق و مخالف قول و نظریہ مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو ثابت کردیا کہ یہ آیت ہر لحاظ سے حضرت علی ع کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

ایک ثبوت ہزاروں نفی پر مرجّح ہوتا ہے۔ اصولِ عمومی کے تحت اس آیت کا اسبابِ نزول، حضرت علی ع کا مذکور واقعہ مختلف متواتر روایات کے سلسلوں سے ثابت ہوچکا ہے۔ اور اس کے برعکس کوئی قابل اعتبار نقل یا پھر روایت وارد نہیں ہے۔ اور یہاں سے تمام مخالفین کے دعووں کی بطلانیت بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ مثلاً رؤیت ہلال دو عادل گواہوں سے ثابت ہوتی ہے، چاہے اس کے  مقابل ہزاروں نفی یا پھر انکار کرنے والے موجود ہوں لہذا ان پر اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ عقل و شریعت کے نزدیک یہ نفی قابل اعتبار نہیں ہوگی۔ لہذا الگ سے ایک مثبت و مضبوط اثبات جب تک موجود نہ ہو یہ حکم حذف نہیں ہوگا۔

جی ہاں مذکور اور غیر مذکور تمام حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مائدہ ۵۵ وی آیت حضرت علی ع کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور ” میں جس کا مولا ہوں اس کے علی ع مولا ہیں؛ علی ع تمام مومن کے مولا ہیں۔( ترمذی: ۶​۲۶۶، ابن ماجہ: ۱​۱۹۷، ۲۱۰، مثند احمد: ۱​۸۴، ۴​۲۸۱، ۵​۳۴۷) اس حدیثِ شریف میں مذکور ‘ تمام مومن کے مولا ہین کا عبارہ، آیت میں بحثِ ذکر “ولیکم” کے عبارے کو صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

بعض حدیثوں میں وارد مولا ( مولاہ ـ مولاکم) جیسے لفظوں کا معنیٰ بھی یہی ہے۔ اور اس کے ساتھ موافقتِ عجیبہ کے تحت؛ کچھ روایات میں آتا ہے کہ عبداللہ ابن مسعود رض مذکور آیت میں “ولیکم” کے لفظ کو “مولاکم” کی قرات سے تلاوت کرتے تھے۔ (مفاتیح الغیب)۔۔۔ اس دوسری قرات کے مطابق بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حدیث میں وارد “ولیکم” اور “مولاکم” جیسے عبارے مائدہ ۵۵میں مشترکہ طور پر موجود ہیں اور ان کا معنیٰ بھی ایک ہی ہے اور اس کے ساتھ یہ تمام حقائق حضرت علی ع کی شان میں وارد ہوئے ہیں۔

 

مؤلف؛ اُستاد حلمی کوجا آسلان سنّی عالمِ اسلام،ترکی

 

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button