شامی فوج دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں صوبہ ادلب میں پیشقدمی کرتے ہوئے حزارین شہر میں داخل ہوگئی – اس سے پہلے شامی فوج صوبے کے اسٹریٹیجک شہر سراقب کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا چکی تھی –
اس درمیان اطلاعات ہیں کہ شامی فوج نے ادلب میں ہی ترکی کے ایک جارح ڈرون طیارے کو مارگرایا ہے شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے خبردی ہے کہ شامی فوج کے ایئر ڈیفنس یونٹ نے ترکی کا یہ جارح ڈرون طیارہ خان السبل علاقے میں مارگرایا – پچھلے تین روز کے دوران شامی فضائیہ کے ایئرڈیفنس یونٹ نے ترکی کے چھے ڈرون طیارے مارگرائے ہیں۔
دوسری جانب ترکی کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ صوبہ ادلب میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران اس کی فوج کا ایک سپاہی ہلاک جبکہ نو زخمی ہوگئے۔ ساتھ ہی ترک وزارت دفاع نے دعوا کیا کہ اسکی فوج نے شامی فوج سے وابستہ اسی سے زائد مراکز کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
ترک وزارت دفاع گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اپنے کم از کم چالیس فوجیوں کے مارے جانے کی تصدیق کر چکی ہے۔ شام میں ترکی کی فوجی کارروائیوں اور مداخلت پر روس نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے –
انقرہ اور ماسکو کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے روس کے صدر پوتن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اس سے پہلے ترک صدر اردوغان اور جرمن چانسلر کے درمیان بھی شام کے صوبہ ادلب کی صورتحال کے بارے میں ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی۔ حالیہ ہفتوں میں شامی فوج اور اس کی اتحادی فورسز نے دہشتگردوں کے آخری اہم مرکز سمجھے جانے والے ادلب صوبے میں آپریشن شروع کر رکھا ہے جس پر ترکی کی جانب سے منفی رد عمل سامنے آیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ترکی تین برسوں سے حکومت کی اجازت کے بغیر شام میں موجود ہے اور شمالی شام کے بعض علاقوں کو اپنے قبضے میں لئے ہوئے ہے جس پر اسے عالمی سطح پر مذمتوں کا سامنا رہا ہے۔
شام کا بحران دوہزار گیارہ میں اُس وقت شروع ہوا جب ترکی، سعودی عرب، امریکہ اور انکے اتحادیوں کے حمایت یافتہ دہشتگردوں نے خطے کے موجودہ حالات کا رخ صیہونی ٹولے کے حق میں موڑنے کے لئے شام پر چڑھائی کی۔اس وقت شام، ایران اور روس کی مدد سے مغربی و عرب ممالک کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔