شاممشرق وسطی

شام پر حملے کے اسرائیلی محرکات

غاصب صیہونی حکومت نے اتوار کی صبح ایک بار پھر دمشق کے نواحی علاقوں اور مشرقی قنیطرہ پر حملے کیے ہیں۔

دمشق میں دفاعی اور عسکری ذرائع نے بتایا ہے کہ اتوار کی علی الصبح مقبوضہ جولان کے علاقے سے کئی راکٹ جنوبی دمشق کے نواحی علاقوں کی جانب فائر کیے گئے جنہیں شام کے ایئر ڈیفینس نے فضا میں نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔
بعد ازاں اسرائیلی جنگی طیاروں نے مشرقی قنیطرہ کے علاقوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں ایک شامی فوجی جاں بحق اور سات زخمی ہو گئے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے شام پر حملے کی توجیہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ دمشق سے مقبوضہ جولان کے علاقے پر راکٹ داغے گئے ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ صرف ایک دعوی ہے کیونکہ شام کے ایئر ڈیفیس یونٹ نے مقبوضہ جولان کی جانب سے فائر کیے جانے والے میزائلوں کو ناکام بنا دیا اور کسی بھی طرح کے حملے کا آغاز نہیں کیا۔
کہا جاسکتا ہے کہ شام کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ سوچ کے نئے مرحلے کی اہم ترین وجہ نیتن یاہو کی اندرون اسرائیل گرتی ہوئی ساکھ ہے۔
بن یامین نیتن یاہو جنہیں اسرائیل کے اندر بد ترین سیاسی صورتحال کا سامنا ہے اور قبل از وقت ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنے اہم ترین رقیب جنرل بنی گینٹس کے مقابلے میں، بڑی مشکل سے تھوڑی بہت کامیابی حاصل ہوئی، کابینہ کی تشکیل بھی نہ کرپائے۔
ایک ایسے وقت میں کہ نیتن یاہو کو اقتدار سے بے دخلی کا سامنا تھا اور صیہونی حکومت کسی اورکو کابینہ کی تشکیل کی ذمہ داری سونپنے والی تھی، ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کی تحلیل کے حق میں فیصلہ دیا تاکہ ستمبر میں نئے انتخابات کرائے جاسکیں اور نیتن یاھو کو اس وقت تک اقتدار میں باقی رہنے کا موقع مل سکے۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق کابینہ کی تشکیل میں نیتن یاھو کی ناکامی کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ نیتن یاھو کا دور ختم ہوچکا ہے اور انہیں بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں نیتن یاھو نے دوسرے ملکوں سے آنے والے یہودیوں کو جو سہولتیں دینے کا وعدہ کیا تھا ان کی فراہمی میں ناکامی کے بعد، مقبوضہ فلسطین سے صیہونیوں کی واپسی کا عمل تیز ہو گیا ہے۔
مذکورہ چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے نیتن یاھو نے، چالیس روز قبل بننے والی پارلیمنٹ تحلیل کیے جانے کے محض تیسرے روز شام پر ایک بار پھر حملہ کیا ہے تاکہ اندرونی صورت حال سے رائے عامہ کی توجہ ہٹائی جا سکے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button