Mubahala
آیتِ مباہلہ شریف استاد حزب اللہ حقویردی (حِلمی کوجا آسلان)، ترکی کے سنّی عالم دین
Mubahala
“آیتِ مباہلہ شریف” استاد حزب اللہ حقویردی (حِلمی کوجا آسلان)، ترکی کے سنّی عالم دین
آيت مباہلہ میں، رسول اللہ اور نجران کے نصرانیوں کے بیچ مباہلہ کے واقعہ کے طرف اشارہ کیا گیا ہے. علماء کے جانب سے آیتِ مباہلہ امام علی علیہ السلام کی فضیلت میں سے جانیں جاتی ہے.
یہ مقالہ استاد حزب اللہ حقویردی (حِلمی کوجا آسلان)، ترکی کے سنّی عالم دین کی کتاب؛
” امام خمینی کی شخصیت میں ثقافتِ عاشورہ کی تجلیات”
سے اکتباس کیا گیا ہے.
رسول اللہ علیہ السلام کہ جن کی ہر فعل و کلما وحی سے متعلق ہے، یہ بات واضح ہے کہ بہت سی حدیث میں اہلبیت کا ذکر کیا گیا، تو یہاں سے یہ بات بھی ظاہر ہی ہے کہ قرآن میں بھی اہلبیت کا ذکر کیا گیا ہوگا. چاہئے واسطہ اور بالواسطہ قرآن میں اہلبیت کا ذکر بہت سی آیتِ شریف میں ہوا ہے.
“آیتِ مباہلہ شریف” :
عیسی کی کہاوت اللہ کی نزدیک آدم کی طرح ہے، اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے. اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا.
[Surah al Al-imran(3), 59-60]
جیسے کے اِن آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسٰی کے حال پر رسول اللہ سے نجران کے نصرانیوں کی ایک طویل بحث و مباحثہ پر یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی اور اس آیت میں نجرانیوں کو چیلنچ کیا گیا ہے :
پھر اے محبوب جو تم سے عیسی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ علم آچکا تو ان سے فرما دہ آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں.
[Surah al Al imran(3),61]
بعد از اس آیت کے نازل ہونے کے رسول اللہ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلایا اُن لوگوں کے آنے کے بعد سب ایک ساتھ مباہلہ کے لئے نجران کے نصرانیوں کے سامنے آئے، نجران کی ہیت نے جب اہلبیتِ رسول اللہ کے نورانی اشخاص کا مشخص کیا تو نصرانیوں کے دل میں ایک خوف طاری ہو گیا جس کے سبب اِن میں سے ایک نے کہا کہ؛ ” یہ ایسے چہرے ہیں کہ اگر اِنہونے اللہ سے پہاڑوں کو بھی ہلانا چاہا تو بیشک اللہ یے کریگا!…” یہ کہہ کر مباہلہ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ سے سمجھوتا کر کے اپنے ملک روانہ ہوگئے.
ایک شرعی اور عقلی خصوص کے مطابق، مثال کے طور پر؛
“اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کرتے. وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے.”
[Surah an Najm(53), 3-4]
” اور (اے محمد) وحی کے پڑھنے کے لئے اپنی زبان نہ چلایا کرو کہ اس کو جلد یاد کرلو. اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمے ہے. جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو. پھر اس(کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے.
[Qiyamat(75),16-17-18-19]
اس حادثے کے وقوعِ پذیر کے لئے متعلہ کریں؛
الميزان: ٣/ ٢٤٤-٢٢٣ ؛
مفاتيح الغیب(فخری رازی): ٦/ ٣٧١-٣٧٠ ؛
ابن کثیر: ٤/ ١٢٧١ ؛
در المنثور: ٢/ ٣٩ ؛
ابن اثیر الکامل(ترکی زبان کا ترجمہ): ٢/ ٢٧٠ ؛
الکشّاف: ١/ ٣٦٩ ؛
المسلم(ترکی زبان کا ترجمہ) : ١٠/ ٢٤٥؛…
جابر ابن عبداللہ کی طرف سے روایت میں آیا ہے کہ؛
اس آیت میں، “أَبْنَاءَنَا”(ہمارے بیٹے) سے مقصد، حضرت حسن اور حسین، “أَنْفُسَنَا”(ہم خود) سے مقصد، مشترکہ طور پر رسول اللہ اور حضرت علی، “نِسَاءَنَا”(ہماری عورتیں) سے مقصد، صرف حضرت فاطمہ ہیں.(ابن الکثیر:٤/ ١٢٧١)؛…
اور اِس حادثے کے متعلق فخر الدین رازی نے نقل کیا ہے کہ؛
“اِس دوران رسول اللہ گھر سے باہر تشریف لائے جب کہ اُن قمر پر ایک قالی چادر تھی. حضرت حسین کو گود میں لیا ہوا تھا جب کے حضرت حسن کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور حضرت فاطمہ رسول اللہ کے پیچھے اور حضرت علی حضرت فاطمہ کے پیچھے تھے…” رسول اللہ نے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا!… ” اور پھر نصرانیوں کے بشپ نے اپنی ساتھیوں سے کہا: ” اے عیسائیوں میں اپنے سامنے ایسے چہرے مشخص کررہا ہوں کے اگر اُنہوں نے اللہ سے ایک پہاڑ کو ہلانے کا کہا تو بشک خدا یہ کرے گا. اس لیے اِن لوگوں سے مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سرزمین پر کوئی عیسائی نہ رہیں!”… (مفاتیح الغیب: ٦/ ٣٧٠)
یہاں پر خصوصی طور پر اس بات کو واضح کرنا چاہیے کہ؛ رسول اللہ جب آل رسول کے ساتھ مباہلہ کے لیے نجران کے عیسائیوں کے سامنے آئے، تو یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ آل رسول کی یہ ممتاز اشخاص وہی ہیں کہ جن کا ذکر بہت سی حدیث میں رسول اللہ نے اپنی عترت و اہلبیت کے الفاظ میں کیا. اور یہ بات بھی واضح ہے کہ رسول اللہ جب مباہلہ کے لئے آئے تو ساتھ میں نہ اپنی زوجہ محترمہ کو نہ اپنے چچا حضرت عبّاس کو اور نہ ہی اپنی دیگر بیٹیوں کو لیا اور اِس طرح رسول اللہ نے مشخص طور پر یہ واضح کردیا کہ اُن کی عترت و اہلبیت میں کون شامل ہے. اور “نِسَاءَنَا”(ہماری عورتیں) کی تعبیر میں رسول اللہ کی زوجہ محترمہ کو بھی شامل نہیں کیا. لیکن پھر بھی کچھ اہل تعصب کی طرف سے “نِسَاءَنَا” کی تعبیر میں بہت سی اشخاص کو شامل کرنے کی اور غلط تأویل کرنے کی کوشش کی گئی ہے.
اور اِس ہی طرح یہ بھی واضح ہے کہ “أَبْنَاءَنَا”(ہمارے بیٹے) کی تعبیر سے مقصد حضرت حسن اور حسین ہیں. کہ؛” یہ میرے بیٹے ہیں میری بیٹی کے بیٹے ہیں”؛ ” اے اللہ میں اِن دونوں سے محبت کرتا ہوں آپ بھی اِن سے محبت کریں اور اِن سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کریں.”؛ ” میرے بیٹوں کو بلاؤں!.. ”
؛”میرے بیٹوں کا نام کیا رکھا؟…”(ترمذی: ٦/ ٣٠٦-٣٠٤ ؛ الحاکم: ٣/ ١٦٦-١٦٥ ؛ البخاری الأدب المفرد(ترکی زبان کا ترجمہ) : ٢/ ١٨١-١٨٠ ؛ مسند الاحمد: ١/ ٩٨) اور یہ احادیثِ شریف اِس بات کی دلیل ہیں.
اور یہ بات بھی واضح ہے کہ؛ “أَنْفُسَنَا”(ہم خود) سے مقصد مشترکہ طور پر رسول اللہ اور حضرت علی ہیں. لہٰذا؛”علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں؛ علی دنیا و آخرت میں میرا بھائی ہے!..”(ابن ماجہ: ١/ ٢٠٥ ؛ ترمذی: ٦/ ٢٧٣-٢٧٢) جیسی احادیث شریف اس بات کی وضاحت و دلیل ہیں. اور یہ دلائل حقیقی مؤمنوں کے لئے جہالت، غفلت و تعصب سے فلاح پانیں کے لیے ایک عقلی اور شرعی وسیلہ ہیں.
چونکہ حضرت علی کی پرورش رسول اللہ کی خاص تربیت سے ہؤی اور رسول اللہ کی پاک نسلِ مبارک کا سلسلہ بھی اُن سے دوام ہونے کے سبب حضرت علی کا ذکر “أَبْنَاءَنَا”(ہمارے بیٹے) کی تعبیر میں بھی کیا جا سکتا ہے. ہمارے خیال سے مسئلہ کے اِس وجہ کو بھی نظر آنداز نہیں کرنا چاہیے.