مغربی ملکوں نے بلوائيوں کی حمایت کرکے مذاکرات کی میز کو ترک کیا، صدر ابراہیم رئیسی
صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی نے کہا ہمارے لئے صرف ایٹمی مذاکرات ہی اہم نہیں تھے بلکہ دوسرے معاملات بھی ہمارے مدنظر تھے اور ہم نے علاقائی ممالک اور دنیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے ہیں۔
سید ابراہیم رئیسی نے تہران میں آج (منگل کو) ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور نامہ نگاروں کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔
اس پریس کانفرنس میں دوسو پچاس سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی نامہ نگار، فوٹوگرافر اور کیمرہ مین موجود تھے۔
صدر مملکت نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دشمن نے دو اسٹریٹیجیاں اختیار کی تھیں، پہلی اسٹریٹیجی ایران کو دنیا میں الگ تھلگ کرنا اور دوسری اسٹریٹیجی، ایرانی عوام کو مایوس اور ان ميں ناامیدی پیدا کرنا تھا جبکہ دشمن کو ان دونوں اسٹریٹیجیوں میں ناکامی ہوئي۔
صدر سید ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ ہم نے اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملکوں اور پڑوسیوں سے تعلقات کو مستحکم بنانے کو بھی مدنظر رکھا اور ہمیں پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی برقراری اور انہیں مستحکم بنانے میں کامیابی ہوئي۔
اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات تعطل کا شکار ہوگئے تھے لیکن ہم نے دوبارہ تعلقات بحال کر لئے ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے تجارتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے ساتھ تجارتی تعلقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے ملک میں بہت زیادہ توانائی پائي جاتی ہے۔
افریقہ، جنوبی امریکہ اور بہت سے ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات کی برقراری نیز یوریشیا اکنامک یونین میں متحرک ہونے، شنگھائی تعاون تنظیم اور حال ہی میں برکس کی رکنیت سے واضح ہوگيا ہے کہ ایرانِ اسلامی میں بہت زیادہ توانائی اور صلاحیت پائی جاتی ہے۔
ایران کی سیاسی اور اقتصادی پوزیشن سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ دشمن کو اپنی اسٹریٹیجی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔