صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے نیویارک کا دورہ مکمل کرکے تہران واپسی پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی روش منطقی اور استدلالی ہے ، اس لئے اس کو مذاکرات میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے لیکن مذاکرات میں اصلی رکاوٹ خود امریکا ہے ۔
صدرمملکت ڈاکٹر حسن روحانی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں سالانہ اجلاس میں شرکت کے بعد جمعے کو تہران واپس آگئے ۔انھوں نے تہران واپسی پر صحافیوں سے گفتگو میں اپنے دورے کو کامیاب اور مفید قرار دیا۔ انھوں نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی منطقی اور استدلالی روش کے باعث، مذاکرات سے کوئی پریشانی اور ہچکچاہٹ نہیں لیکن مذاکرات میں اصلی رکاوٹ خود امریکا ہے ۔انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے اقدامات اور پالیسی کے سائے میں گروپ پانچ جمع ایک کے تحت بھی امریکا سے مذاکرات نہیں کرے گا ۔
صدر ایران نے کہا کہ امریکا اگر توبہ کرکے ایٹمی معاہدے میں واپس آجائے اور پابندیاں اٹھالے تو ایران کے ساتھ گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات میں شریک ہوسکتا ہے ۔صدر ایران نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دنیا کے مختلف ملکوں کے صدور، وزرائے اعظم اور دیگر رہنماؤں سے اپنی کامیاب ملاقاتوں اور مذاکرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی صدر اور رہنما ایسا نہیں ہے جو ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکلنے اور ایران کے خلاف اس کی غیر قانونی اور خود سرانہ پابندیوں کی مذمت نہ کرتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ ان سے ملاقات میں، بلا استثنا، سبھی عالمی رہنماؤں نے جامع ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکلنے کو غلط فیصلہ قرار دیا ہے۔صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ نیویارک میں یورپ، افریقا اور ایشیا کے سبھی اعلی سطحی وفود نے ایرانی وفد سے ملنے کی درخواست کی ۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی وفد نے ان سبھی وفود سے ملاقات میں عالمی برادری تک ایرانی عوام کی مظلومیت اور حقانیت کا پیغام پہنچایا اور ایرانی موقف کی وضاحت کی۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے صحافیوں کو بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دنیا بھر سے آنے والے رہنماؤں پر واضح ہوگیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پابندیوں اور حداکثر دباؤ کی مسموم فضا میں مذاکرات نہیں کرسکتا۔
قابل ذکر ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے گزشتہ پیر کو نیویارک پہنچے تھے ۔ نیویارک میں ان کے قیام کے پہلے ہی دن، فرانس کے صدر امانوئل میکرون اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ملاقات کی ۔
دوسرے دن منگل کو جرمن چانسلر انجلا مرکل، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، جاپانی وزیر اعظم ابے شینز اور دنیا کے مختلف ملکوں کے صدوراور وزرائے اعظم نے صدر ایران کی قیامگاہ پر پہنچ کے ان سے ملاقات کی ۔
ان ملاقاتوں میں باہمی روابط اور اہم ترین عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نیویارک میں صدر ایران کے قیام کے دوران امریکی ذرائع ابلاغ عامہ کے سربراہوں ،امریکی دانشوروں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین نے بھی ملاقات کی ۔
بدھ کو صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا جس میں انھوں نے مغربی ایشیا میں امریکی افواج کی موجود گی کو کشیدگی اور بدامنی کے بنیادی عوامل میں شمار کیا اور ہرمز پیس پلان اور امید الائنس کے نام سے خلیج فارس میں قیام امن کا فارمولا پیش کیا ۔
صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغربی ایشیا اور خلیج فارس میں امن و استحکام علاقائی ملکوں کے باہمی تعاون سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔
بدھ کو بھی دنیا کے مختلف ملکوں کے رہنماؤں اور اقوام متحدہ کے سیکریٹر جنرل نے صدر ایران سے ملاقات کی – صدر ایران نے جمعرات کو نیویارک میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سےخطاب کیا اور نیویارک سے تہران کے لئے روانگی سے قبل ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور بعض دیگر رہنماؤں نے صدر ایران سے ملاقات کی ۔