ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری نے شام کے شہروں دیرالزور،المیادین اور البوکمال میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے اگلے محاذوں کا دورہ اور شامی فوج اور ایران کے فوجی مشیروں سے ملاقات اور گفتگو کی ہے۔
جنرل محمد باقری نے مشرقی شام کے دورے کے موقع پر امریکہ اور خطے کے بعض رجعت پسند عرب ملکوں کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے میں باقی رہ جانے والے علاقوں کی آزادی کے لیے شامی فوج اور عوامی رضاکار فورس کی کارروائیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔
جنرل باقری نے عراق اور ایران کی مشترکہ سرحدی علاقے کا بھی دورہ کیا اور اس اسٹریٹیجک گزرگاہ پر بنے ریمپیٹ پر کھڑے ہو کرعلاقے کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے جہاں سے دہشت گردہ گروہ داعش کے آخری ٹھکانے صرف دو سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں-
ایرانی فوج کے سربراہ جنرل باقری کے البوکمال میں داخل ہوتے ہی امریکہ ڈرون اور جنگی طیاروں نے علاقے پر پروازیں بھرنا شروع کردیں تھیں لیکن ایرانی سپہ سالار نے امریکی اشتعال انگیزی کو خاطرے میں لائے بغیر پوری اطمینان کے ساتھ شامی فوج اورعوامی رضاکار فورس کے مورچوں اور آئندہ کی منصوبہ بندی کا جائزہ لیا۔ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری نے شام کے صوبے المیادین اور دیرالزور میں فرات کے ساحلی علاقوں کا بھی دورہ کیا اور ہرعلاقے کے کمانڈروں اور سپاہیوں سے ملاقات کی اور ہاتھ ملایا۔
دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے محاذوں کے معائنے کے موقع پر ہمارے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل باقری نے ایک بار پھر دہشت گردوں کےمکمل خاتمے پر تاکید کی اور یہ بات زور دے کر کہی کہ شامی حکومت کی اجازت کے بغیر آنے والی قوتوں کو یہاں سے نکلنا ہوگا –
شام میں بحران سن دوہزار گیارہ میں اورعراق میں سن دوہزار چودہ میں اس وقت شروع ہوا تھا جب سعودی عرب، امریکہ اوراس کے بعض دوسرے علاقائی اتحادیوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے ان ملکوں میں وسیع سرگرمیوں کا آغاز اور متعدد شہروں اور علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس سازش کا مقصد علاقائی طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں موڑنا تھا لیکن شام اور عراق کی مسلح افواج نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی مشاورت کے ذریعے دہشت گرد گروہ داعش کی بساط لپیٹ دی ہے اور دیگر دہشت گرد گروہ بھی اب ان ملکوں میں اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔