ایرانمشرق وسطی

خلیج فارس کی سلامتی کے لئے بیرونی افواج کی کوئی ضرورت نہیں، ایران کے صدر

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا ہے کہ خلیج فارس میں امن و سلامتی کے لئے غیر ملکی فوجیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور علاقے کے ممالک اپنے اتحاد و یکجہتی اور مذاکرات کے ذریعے اپنی سلامتی کا خود تحفظ کر سکتے ہیں۔

ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کے روز اپنی کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ وہ تمام نعرے جو خلیج فارس اور بحیرہ عمان میں نئے اتحاد کی تشکیل کے بارے میں لگائے جا رہے ہیں سب ظاہری اور غیر عملی ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ علاقے میں بڑی طاقتوں خاص طور سے امریکہ کے اقدامات کا مقصد اسلامی ملکوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا اور ان ممالک نیز علاقے کے خزانے کو خالی کرنا ہے۔ڈاکٹر حسن روحانی نے علاقے کی سلامتی کے لئے صیہونی حکومت کی شمولیت کے دعوے کو کھوکھلا قرار دیا اور کہا کہ صیہونی حکومت کے اگر بس میں ہے تو اپنا ہی تحفظ کرلے۔ صدر ایران نے کہا کہ صیہونی جہاں بھی موجود ہوئے، بدامنی اور قتل و تشدد کا بازار گرم رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی اور قتل و تشدد کی اصل وجہ غاصب صیہونی حکومت ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایران تمام اسلامی اور خاص طور سے پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کے لئے ہمیشہ آمادہ ہے۔ڈاکٹر حسن روحانی نے خلیج فارس کے ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ساحلی ملکوں کے ساتھ ایران علاقے کی سلامتی کا تحفظ کرنے کے لئے آمادہ ہے جیساکہ تاریخ میں وہ ایسا کرتا بھی رہا ہے۔ایران کے وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ خلیج فارس میں بدامنی کی اصل وجہ علاقے میں امریکی مداخلت اور ایرانیوں کے خلاف اس کی اقتصادی دہشت گردی ہے۔وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ خلیج فارس کے علاقے میں اغیار کے بحری جنگی جہازوں میں اضافے نے پورے علاقے کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے جو کبھی بھی دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ امریکہ اگر بحری راستوں کی سلامتی کا خواہاں ہے تو اسے بدامنی پھیلانے والی حرکتوں کو بند کرنا ہو گا۔ڈاکٹر محمد جواب ظریف نے اسی طرح اپنے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ہتھیاروں کا پھیلاؤ پورے علاقے کے لئے خطرے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں منجملہ برطانیہ کے ساتھ مل کر اشتعال انگیز اقدامات انجام دے رہا ہے۔امریکیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ خلیج فارس کے علاقے میں ایک فوجی اتحاد تشکیل دینا چاہتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button