ایراندنیاعربمشرق وسطی

متحدہ عرب امارات اور بحرین کی ایران کے خلاف ہرزہ سرائی

متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک بار پھر بے بنیاد الزامات کو دہرایا ہے

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امارات کے وزیرخارجہ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگایا اور دعوی کیا کہ ایران علاقے میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے۔متحدہ عرب امارات کے حکام ایک عرصے سے سعودی اور امریکی حکام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایران کے خلاف جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں ۔ ایران کے خلاف امارات کے وزیرخارجہ کے الزامات ایسے عالم میں سامنے آئے ہیں کہ سعودی اور اماراتی اتحاد گذشتہ پانچ برسوں سے یمن کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ نے اپنی ہرزہ سرائیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے دعوی کیا کہ ایران کے تنب بزرگ ، تنب کوچک اور ابوموسی جزائر متحدہ عرب امارات کی ملکیت ہیں۔ متحدہ عرب امارات اپنے غیرملکی آقاؤں کی حمایت سے ہر اجلاس میں ایران کے ان تینوں جزیروں پر اپنی ملکیت کا بےبنیاد دعوی دہراتا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی دستاویزات کی بنیاد پر یہ تینوں جزیرے اسلامی جمہوریہ ایران کا اٹوٹ حصہ ہیں۔درایں اثنا بحرین کی ڈکٹیٹر آل خلیفہ حکومت نے سعودی حکام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایران کو آرامکو آئیل تنصیبات پر حملوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق بحرین کی آل خلیفہ حکومت کے وزیرخارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بےبنیاد دعؤوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات کے خلاف یمنیوں کے ڈرون حملوں کے پیچھے تہران کا ہاتھ تھا۔ آل خلیفہ کے وزیرخارجہ نے اپنے مضحکہ خیز بیان میں ایران پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگایا اور دعوی کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عرب ممالک کے امور میں مداخلت کرتا ہے۔آل خلیفہ حکومت کے حکام ایک عرصے سے سعودی اور امریکی حکام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایران کے خلاف بےبنیاد الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے خلاف آل خلیفہ حکام کے بےبنیاد دعؤوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بحرینی حکومت اپنی کرتوتوں کی ذمہ داری مسلسل دوسروں پر ڈالنے اور پڑوسیوں پر الزام لگانے کے بجائے اپنے ملک کے مخالف سیاسی گروہوں کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لئے عالمی برادری کی جانب سے باربار کی جانے والی نصیحتوں پر عمل کرے اور ان کا مثبت جواب دے۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button