ایک معروف پاکستانی صحافی رہبر انقلاب اسلامی کے نام پرلاجواب ہوگئے
پاکستان کے نامور صحافی حامد میر نے ایک مقالہ تحریر کیا ہے ، ہم اپنے قارئین محترم کے لئے اس مقالے سے کچھ منتخب حصہ پیش کر رہے ہیں۔:۔
دریائے پونچھ کے کنارے واقع اس خوبصورت گاوں کا نام مدارپور تھا۔ ہجیرہ سے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے قریب اس گاوں کے مکین کئی دنوں سے اپنے گھروں میں محصور ہیں کیونکہ ہندوستانی فوج اس گاوں کی آبادی کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے
ہندوستانی فوجی اکثر اوقات گائوں والوں کی مرغیوں اور بکریوں پر بھی نشانے لگاتے ہیں لیکن پانچ اگست کے بعد سے وہ انسانوں پر نشانے لگا رہے ہیں۔ اس گاوں کے قریب درختوں کی اوٹ میں علاقے کے ایک بزرگ نے مجھے بتایا کہ ہم نے 1947میں اپنے زورِ بازو سے پونچھ کے اس علاقے کو آزادی دلوائی تھی، ہم سرینگر کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں پہنچ گئے اور انہوں نے سیز فائر کرادیا۔ بزرگ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا جائے گا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو بزرگ نے کہا کہ ہم اس ایوارڈ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں دریائے پونچھ کے کنارے پر سفر کرتا ہوا ایک تنگ پل عبور کر کے سہڑہ پہنچا توادھر ایک ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان نے مجھے مخاطب کیا اور کہا: ایک بات پوچھنا تھی میں نے مسکرا کر نوجوان سے کہا کہ میں ذرا جلدی میں ہوں، وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور کہا کہ آپ نے ایران کے رہبر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا بیان دیکھا ہے جنہوں نے اس مشکل وقت میں ہم کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں ان کے ٹویٹ پر تو ہندوستانی میڈیا میں بڑا شور ہو رہا ہے۔ نوجوان نے کہا کہ مودی کو متحدہ عرب امارات میں ایوارڈ دیا جا رہا ہے، کیا پاکستان کی حکومت ہمارے محسن آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دے گی؟ یہ سن کر میں اچانک رک گیا۔ غور سے اس نوجوان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ اس سوال کا کیا جواب ہے؟ مجھے کوئی جواب نہ سوجھا۔ میں اس نوجوان کے ساتھ کوئی غلط بیانی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔
سہڑہ کے گرلز کالج پر ہونے والی بمباری دیکھنے کے بعد میں اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔ مجھے اسلام آباد پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ لائن آف کنٹرول کی صورتحال پوری دنیا تک پہنچ سکے۔ گاڑی میں بیٹھا تو آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بارے میں سوال پوچھنے والا کشمیری نوجوان پھر سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگاچلو آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو نہیں ہماری بہن ناز شاہ کو ایوارڈ دے دو جس نے مودی کو ایوارڈ دینے والوں کو ایک احتجاجی خط تو لکھ دیا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میرے اختیار میں ہو تو آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای اور ناز شاہ دونوں کو ایوارڈ دے دوں۔
یقین کیجئے کہ اس نوجوان نے مجھے بہت مغموم کردیا۔ میں کوٹلی کے راستے اسلام آباد واپس آتے ہوئے سوچ رہا تھا ان کا ایک سدا بہار ترانہ آج بھی کشمیریوں کی زبان پر ہے
’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہاد ت ہے آیا‘‘
کشمیری پہلے بھی جانیں دیتے رہے، آئندہ بھی جانیں دیں گے لیکن وہ پوچھ رہے ہیں کہ جب وہ لاشیں اٹھا رہے ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانے والے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو پاکستان کی طرف سے ویسا ایوارڈ مل سکتا ہے جیسا ایوارڈ بھائیوں نے مودی کو دیا۔۔؟