شیعہ و سنی مساوی طور پر قابل احترام ، شیعوں کا تحفظ ہم کريں گے، طالبان کا بڑا اعلان
طالبان کے ارشاد و دعوت کمیشن کے سربراہ امیر خان متقی نے کہا ہےکہ افغانستان کے شیعہ اور سنی شہریوں میں بہت زيادہ اشتراکات ہيں، شیعہ اور سنی دونوں ہی ، اسلامی نظام ، اتحاد ، ترقی، خوشحالی اور اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے خواہاں ہيں ۔
انہوں نے دعوی کیا کہ افغانستان کے طالبان ، شیعہ مسلمانوں کو ، اپنا ہم وطن مانتے ہيں اور جس طرح سے سنی مسلمانوں کی جان و مال اور عزت کا تحفظ کرتے ہيں اسی طرح اہل تشیع کا بھی تحفظ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان امتیازی سلوک کی پالیسی میں یقین نہیں رکھتے اور اہل سنت و اہل تشیع ، دنوں ہی ایک طرح سے قابل احترام ہیں ۔
طالبان کے ارشاد و دعوت کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ اسلام اور وطن کے دشمن عراق کی طرح افغانستان میں بھی شیعہ سنی میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہيں ۔
انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتیں ، ناکامی کے بعد اب عسکریت پسندی کے لئے کوشاں ہيں تاہم ہم ان طاقتوں کو پیغام دیتے ہيں کہ جب پچاس ملک ملک کر کچھ نہيں کر پائے تو تم کچھ لوگ کیا کر لوگے ؟ اس لئے شیعہ اور سنی دھوکے میں نہ آئيں ۔
انہوں نے کہا کہ طالبان یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ انتقام کے در پے نہيں اور افغانستان کے تمام لوگ ایک مضبوط اور جامع افغان حکومت کے زیر سایہ ہوں گے اور ملک ترقی کرے گا ۔
متقی نے بتایا کہ گزشتہ دو مہینوں کے دوران سو سے زائد شہروں پر طالبان کا قبضہ وہ چکا ہے اور خونریزی سے بچنے کے لئے ہتھیار ڈالنے والوں کو ان کے اہل خانہ کے پاس پہونچا دیا گيا ہے ۔
انہوں نے افغانستان کے شیعہ مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے بہت سے شیعہ اکثریتی علاقے طالبان کے قبضے میں ہیں لیکن کسی ایک شیعہ پر بھی حملہ نہيں کیا گيا لیکن پروپگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ ہم شیعوں کے خلاف ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح طور پر کہتے ہيں اور جب جان لیں کہ طالبان کا نظریہ ، داعشی نہيں ہے اور ہم چودہ سو سال پہلے والے اہل سنت و جماعت کی مسلک پر عمل پیرا ہيں اور اگر کسی شیعہ یا سنی پر ظلم ہوا ہوگا تو طالبان اس کا حق اسے دلائيں گے ۔
انہوں نے کابل میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے دھماکوں اور حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب دشمن کے پروپگنڈے ہيں اگر یہ طالبان کا کام ہوتا تو کیوں طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں کسی ایک شیعہ عالم دین یا شیعہ فرد کے خلاف کچھ نہيں کیا گيا ، افغانستان ، اس ملک کے ہر فرد کا گھر ہے وہ چاہے جس قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو ۔