شاممشرق وسطی

دہشتگردوں پر شامی فضائیہ کا حملہ، امریکہ اور ترکی کے خلاف شامی شہریوں کا مظاہرہ

شامی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے شمالی صوبے ادلب میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔

روسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شامی فضائیہ کی بمباری میں ادلب کے جنوب میں واقع دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ ہو گئے۔ اس علاقے میں حراس الدین اور الترکستانی نامی دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانے واقع ہیں۔
شامی فوج نے گزشتہ ہفتے بھی فضائیہ کے تعاون سے صوبہ حماہ اور ادلب کے سنگم پر واقع دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔
اگرچہ شام کا کوئی بھی شہر مکمل طور پر دہشت گردوں کے کنٹرول میں نہیں تاہم باقی ماندہ دہشت گرد عناصر موقع پا کر شام کے مختلف شہروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
ایک اور اطلاع کے مطابق شمالی شام کے صوبے حلب کے شہر الباب کے شہریوں نے علاقے میں ترک کرنسی کو رائج کرنے کی کوشش کے خلاف مظاہرہ کیا۔
دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں شامی کرنسی کے بجائے ترک کرنسی میں لین دین کو رواج دینے کا اعلان کیا تھا۔ ترک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے بہانے شام کے بعض علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور ترک فوجیوں کی ایک تعداد اب بھی شامی علاقوں میں موجود ہے۔
اُدھر دوسری جانب شام کے صوبے لاذقیہ اور درعا کے شہریوں نے مظاہرے کرکے اپنے ملک کے خلاف امریکی اقدامات کی مذمت کی ہے۔ صوبہ لاذقیہ اور درعا میں ہونے والے مظاہروں میں شریک شامی شہری اپنے ملک کے خلاف امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ بند کیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مظاہرین صدر بشار اسد کی حمایت میں بھی نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دہشت گردوں کے حمایت بند اور اپنے فوجیوں کو فوری طور پر شام سے نکال لینا چاہئے۔

شامی عوام اس سے پہلے بھی کئی بار اپنے میں ملک میں امریکی دہشتگردوں کی غیر قانونی موجودگی کے خلاف مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ دہشتگرد امریکی فوج نے گزشتہ چند مہینوں کے دوران ہزاروں ٹرکوں کی مدد سے اسلحہ اور فوجی ساز و سامان شام میں تیل کے حامل علاقوں میں منتقل کیا ہے۔

شام دنیا میں تیل کے حامل ممالک کی فہرست میں بتیسویں نمبر پر ہے جس کے پاس ایک اندازے کے مطابق دو ارب پانچ سو ملین بیرل تیل موجود ہے۔ شام میں زیادہ تر تیل کے ذخائر ملک کے مشرقی علاقوں اور دیر الزور صوبے میں جبکہ بعض محدود ذخائر حماہ، رقہ اور حُمص میں موجود ہیں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button